1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ملٹری انٹیلیجنس کے نقشے میں غلطی سے اسرائیلی ریاست غائب

7 مئی 2020

وفاقی جرمن فوج کی ایک انٹیلیجنس ایجنسی کے نقشے میں غلطی سے اسرائیلی ریاست غائب ہو گئی، جس پر ایجنسی کو معذرت کرنا پڑ گئی۔ ایک رپورٹ کے ابتدائی مسودے میں اسرائیل کو اسی رنگ میں دکھایا گیا تھا، جس میں ہمسایہ ملک اردن کو۔

وفاقی جرمن فوج کی کاؤنٹر انٹیلیجنس ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر کولون میں ہےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini

جرمنی کے متعدد داخلی اور بیرونی انٹیلیجنس اداروں میں سے ایک وفاقی فوج کا وہ خفیہ ادارہ بھی ہے، جو ملٹری کاؤنٹر انٹیلیجنس ایجنسی یا جرمن زبان میں مختصراﹰ ایم اے ڈی کہلاتا ہے۔ اس ایجنسی نے اپنی 2019ء کے لیے سالانہ رپورٹ کا جو ابتدائی مسودہ تیار کیا، اس میں مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے لیے ایک نقشہ بھی شامل کیا گیا تھا۔

لیکن غلطی یہ ہوئی کہ اس رپورٹ کے ابتدائی مسودے میں شامل کیے گئے مشرق وسطیٰ کے نقشے میں اسرائیل کے ریاستی وجود کا علیحدہ سے اس وجہ سے کوئی پتا نہیں چلتا تھا کہ اسرائیل کے ریاستی علاقے کو بھی اسی رنگ میں دکھایا گیا تھا، جس میں اسرائیل کے ہمسایہ عرب ملک اردن کو۔

وفاقی دارالحکومت برلن میں جمعرات سات مئی کو ایم اے ڈی کے سربراہ کرسٹوف گرام کی طرف سے بتایا گیا کہ ایسا ہونا ایک غلطی تھا، جس پر یہ خفیہ ادارہ معذرت چاہتا ہے۔

ادارے کے سربراہ نے کہا، ''یہ ایک غلطی تھی، جس کی فوری طور پر اصلاح کر دی گئی تھی اور اس بارے میں باقاعدہ داخلی چھان بین بھی کی گئی تھی۔‘‘

فیڈرل آرمی کی اس کاؤنٹر انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ نے بتایا، ''داخلی چھان بین کے نتائج کے مطابق یہ غلطی ناکافی کوالٹی کنٹرول اور متعلقہ اہلکاروں کی طرف سے مکمل توجہ کے فقدان کا نتیجہ تھی، نہ کہ کوئی ایسا دانستہ اقدام جسا کے پیچھے کوئی سیاسی سوچ یا نیت کار فرما رہی ہو۔‘‘

کرسٹوف گرام نے کہا کہ انہیں اس غلطی پر بہت افسوس ہے اور وہ معذرت چاہتے ہیں۔‘‘ گرام نے زور دے کر کہا کہ ایم اے ڈی کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وفاقی جرمن فوج میں کسی بھی طرح کی ممکنہ سامیت دشمنی اور انتہا پسندانہ رجحانات کا پتا چلا کر ان کے تدارک کو یقینی بنایا جائے۔

م م / ا ا (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں