برلن کے ایک ریڈیو کے مطابق سیاستدانوں کے ذاتی کوائف اور سیاسی جماعتوں کے داخلی دستاویزات ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ہیں۔ اس ہیکنگ سے ماسوائے اے ایف ڈی جرمن پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے ممبران متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/MAXAPP/R. Brunel
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن کے RBB انفو ریڈیو نے رپورٹ کیا ہے کہ جرمن پارلیمان کے ارکین اور سیاسی جماعتوں کے خفیہ کوائف اور دستاویزات کی ہیکنگ کی گئی ہے۔ اس ریڈیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ممبران پارلیمان کا ذاتی ڈیٹا اور سیاسی پارٹیوں کی اندرونی معاملات پر مبنی دستاویزات ٹوئٹر پر جاری کر دیے گئے۔
بتایا گیا ہے کہ ہیکرز نے جرمن پارلیمان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس سے سینکڑوں ممبران پارلیمان متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) اور پارلیمان میں اس کے ممبران اس ہیکنگ کا نشانہ نہیں بنی ہے۔ اس ہیکنگ سے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی متاثر ہوئے ہیں۔
RBB انفو ریڈیو سے وابستہ ایک براڈ کاسٹر کے مطابق پہلی مرتبہ یہ لیک سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جمعرات کو ہوئی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ معلومات سن 2018 دسمبر میں ہیک کر لی گئی تھیں۔ یہ معلومات ہیمبرگ میں بنے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے شائع کی گئیں۔ اس اکاؤنٹ ہولڈر نے خود کو سکیورٹی ریسرچر، آرٹسٹ اور طنز نگار قرار دیا ہے۔
ہیک شدہ یہ معلومات انتہائی خفیہ نوعیت کی نہیں ہیں۔ زیادہ تر ممبران پارلیمان کے گھر کے پتے اور ٹیلی فون نمبرز لیک کیے گئے ہیں جبکہ کچھ واقعات میں ان کے ذاتی کوائف، بینک سے متعلق معلومات، شناختی دستاویزات اور نجی نوعیت کی گفتگو بھی ٹوئٹر پر جاری کی گئی ہے۔
سائبر کرائم اور ہیکنگ کے واقعات سے نمٹنے کی خاطر نہ صرف جرمنی بلکہ متعدد مغربی ممالک فعال ہیں۔ ماضی میں ہونے والے ہیکنگ کے واقعات میں زیادہ تر روسی اور چینی ہیکرز کو ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم بیجنگ اور ماسکو کی طرف سے اس طرح کے غیرقانونی واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
ع ب / ع ح / Burack, Cristina
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔