جرمن مہاجر مرکز میں تارکین وطن پر تشدد، مقدمہ شروع
8 نومبر 2018
جرمنی میں آج جمعرات آٹھ نومبر سے ان تیس افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہو گئی ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مہاجر مرکز میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اشتہار
جرمن میڈیا میں اس مہاجر مرکز کا موازنہ امریکا کے متنازعہ حراستی مرکز گوانتانامو بے تک سے کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں تیس افراد پر مقدمے کی کارروائی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر زیِگن میں ایک کانگریس سینٹر میں ہو رہی ہے۔ یہ کانگریس سینٹر بُرباخ قصبے کے اس مہاجر مرکز سے انتہائی قریب ہے، جہاں چار برس قبل سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر بہیمانہ تشدد کا معاملہ سامنے آیا تھا۔
ملزمان میں اس مہاجر مرکز کے منیجرز، سوشل ورکرز اور نجی سکیورٹی گارڈز شامل ہیں، جنہیں لوگوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھنے، ان پر حملہ کرنے اور چوری کے الزامات کا سامنا ہے۔
اس مہاجر مرکز کے اسٹاف نے مبینہ طور پر سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی تضحیک کی، انہیں مارا پیٹا اور کئی کئی روز تک بند رکھا۔ اُس وقت اس مہاجر مرکز میں قریب سات سو تارکین وطن مقیم تھے۔
صحافیوں کی جانب سے موبائل فونز پر بنائی گئی ہوئی ویڈیوز، جن میں سکیورٹی گارڈز ایک بزرگ شخص کو الٹی زدہ گدے پر لیٹنے کے لیے مجبور کر رہے تھے اور دھمکی دے رہے تھے کہ دوسری صورت میں اسے پیٹا جائے گا، پولیس کے حوالے کی گئی تھیں۔ ان ویڈیوز کے تناظر میں پولیس نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
ستمبر 2014ء میں کچھ دیگر تصاویر بھی سامنے آئی تھیں، جن میں اس مہاجر مرکز کے محافظ ہتھکڑیاں لگے الجزائر کے ایک تارک وطن کو زمین پر لٹا کر اس کی گردن پر اپنا بوٹ رکھے ہوئے تھا۔
یونان کا ایل ایم مہاجر کیمپ، اپنی مثال آپ
یونان کے علاقے پیلوپونیز نامی علاقے میں قائم ایل ایم مہاجر کیمپ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں خانہ جنگی اور تشدد سے بھاگنے والے شامی اور دیگر مہاجرین کو پناہ تو ملی ہی ہے لیکن ان کی زندگی کی دیگر کئی مشکلیں بھی دور ہو گئی ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
گمشدہ رابطہ
ایک نوعمر مہاجر صبح سویرے اپنے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے۔ اس مقام پر انٹرنیٹ ہی واحد ذریعہ ہے، جس کی مدد سے مہاجرین بیرونی دنیا سے رابطہ پیدا کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
بنیادی سہولیات
اس گاؤں میں واقع دو کمروں پر مشتمل ہر بنگلے میں کم ازکم آٹھ مہاجرین کو رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ایسی ہر رہائش گاہ میں ایک باتھ روم اور کچن ہے، جہاں ایک سِنک اور ایک چولہا بھی ہے۔ لیکن گرم پانی اورفرج کسی کو دستیاب نہیں ہے۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
شیر خوار کے ساتھ
شامی مہاجر خاتون رانی موسیٰ کی عمر ستائیس برس ہے۔ اپنے اس بچے کے پیدا ہوتے ہی وہ بذریعہ ترکی یونان پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس بچے کی عمر صرف آٹھ ماہ ہے۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
سکون کا ایک لمحہ
مہاجر خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ مہاجر کیمپ سے نکل کر قریبی مقامات کی سیر کرنے بھی جاتی ہیں۔ اس مشکل وقت کے دوران یہی لمحات ہی ان کو سکون و آرام مہیا کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
مستقبل کی منصوبہ بندی
ایل ایم گاؤں میں سکونت پذیر مہاجرین یہاں سے آگے وسطی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ ان کے راستے مسدود ہیں لیکن وہ پر عزم ہیں۔ اس مقام پر تقریبا ساٹھ مرد اپنے اپنے کنبوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
شام کا وقت
خواتین اور بچے شام کے وقت اکثر اپنی رہائش گاہوں سے نکل کر گپ شپ کرتے ہیں۔ اس کیمپ میں تین سو چالیس افراد آباد کیے گئے ہیں، جن میں دو سو نو مہاجرین کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں جبکہ 69 خواتین ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
روزمرہ کی زندگی
کوئی بھی مشکل ہو لیکن روزمرہ کی زندگی تو چلتی رہتی ہے۔ ایک شامی مہاجر خاتون نے اپنے چھ ماہ کے بچے کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ یہاں کئی خواتین ایسی بھی ہیں، جو حاملہ ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
خریداری بھی ضروری ہے
طارق الفلاح میرسینی میں واقع ایک چھوٹی سی سپر مارکیٹ میں خریداری کرنے گیا تو اس کے بیٹے بھی اس کے ہمراہ ہو لیے۔ بہت سے مہاجرین روزمرہ کا اضافی سامان مقامی دوکانوں سے خریدتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں مقامی کاروباری لوگوں کو مالی فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
دیکھا بھالا چہرہ
یونانی میونسپلٹی آندرہ ویدا کے میئر نبیل مورانت ہیں، جو بنیادی طور پر شام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یونان کے ایسے پہلے میئر ہیں، جو یونانی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل اس مہاجر کیمپ کا قیام ان کا منصوبہ تھا لیکن اس کی لوکل کونسل نے بھرپور حمایت کی۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
فراغت کے ساتھ ساتھ کام کاج بھی
ایک بنگلہ دیشی مہاجر اسٹرابری کے ایک فارم پر کام کرتا ہے۔ یہ فارم ایل ایم گاؤں سے تھوڑی ہی دورواقع ہے۔ یہاں کئی ایسے مہاجر کام کرتے ہیں جن کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ یہ یہاں آٹھ گھنٹے کام کر کے بائیس تا پچیس یورو کما لیتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
مقامی آبادی کی مدد
گیورگس اگیلیپولس (درمیان میں) میرسینی کے مقامی رہائشی ہیں۔ یہ فارغ وقت میں بطور رضاکارمہاجرین کی امداد کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیمپ کے قیام کے وقت مقامی آبادی کی مخالفت اس وقت ختم ہو گئی تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تمام مہاجرین کنبوں والے ہیں۔
تصویر: DW/M. Papadopoulos
11 تصاویر1 | 11
ہاگن شہر کے پولیس سربراہ فرانک رِشٹر کے مطابق، ’’یہ تصاویر ویسی ہیں، جیسی گوانتانامو سے سامنے آئی تھیں۔‘‘
چانسلر انگیلا میرکل کے ایک ترجمان کی جانب سے کولون شہر سے قریب ساٹھ کلومیٹر دور مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل قبول‘ قرار دیا گیا تھا۔