جرمن میں لینگوئج ٹیسٹ شادی شدہ افراد کے بیچ دیوار بن گیا
25 اپریل 2019
جرمن زبان کا ٹیسٹ پاس نہ کرنے کے باعث غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد جرمنی میں اپنے اپنے شریک حیات کے پاس نہیں پہنچ سکتی ہے۔ تین میں ہر ایک ایسا شخص جرمن زبان کے بنیادی ٹیسٹ میں فیل ہو جاتا ہے۔
اشتہار
فنکے میڈیا گروپ نے جرمن پارلیمان کی ایک انکوائری کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شادی کر کے جرمنی آنے کی کوشش کرنے والے افراد اپنے اپنے ممالک میں جرمن زبان کا بنیادی ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ جرمنی نہیں آ سکتے۔
جرمنی میں فیملی ری یونین کے لیے بنیادی جرمن زبان کا ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہے۔ تاہم یہ قانون یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کے علاوہ امریکا اور اسرائیل کے ہنرمند افراد پر لاگو نہیں ہوتا۔
جرمن حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس ایسے اڑتالیس ہزار ایک سو تیس افراد نے جرمن زبان کا بنیادی ٹیسٹ دیا، جن میں سے سولہ ہزار دو سو فیل ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر افراد کو تعلق ترکی، روس، مقدونیہ، کوسووو، تھائی لینڈ، ویت نام اور عراق سے تھا۔ بالخصوص عراق میں ایسے افراد کی فیل ہونے کی شرح پچاس فیصد نوٹ کی گئی ہے۔
وفاقی ادارہ برائے مہاجرت و ترک وطن BAMF کے مطابق بنیادی جرمن زبان سے واقفیت رکھنے والا شخص آسان جملے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے یعنی وہ اپنا تعارف کرا سکتا ہے، دوکانوں سے خریداری کر سکتا ہے اور راستے پوچھ سکتا ہے۔
تاہم اس قانون کی وجہ سے اپوزیشن لیفٹ پارٹی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان Gökay Akbulut نے فنکے میڈیا گروپ کو بتایا کہ یہ قانون ’مکمل طور پر غیرحقیقی‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ لینگوئج ٹیسٹ کی وجہ سے شادی شدہ افراد طویل عرصے تک ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی آ کر زبان سیکھنا زیادہ آسان اور کم خرچ عمل ہو گا اور یوں یہ لوگ ایک نئی زبان سیکھتے ہوئے بوریت کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔
تاہم جرمنی میں انضمام کی کمشنر Annette Widmann-Mau نے حکومتی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کوئی غیر ملکی جرمنی آئے تو اسے بنیادی جرمن زبان سے آشنائی ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق یوں جرمنی آتے ہی ایسے لوگ معاشرے میں بہتر انداز سے مطابقت پیدا کر سکیں گے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔