1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن نوجوانوں میں شراب نوشی کے رجحان میں اضافہ

رپورٹ: عدنان اسحاق، ادارت: شامل شمس: 20 مئی 2009

وفاقی جرمن حکومت کی منشیات اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے متعلق رپورٹ کے مطابق نوجوانوں میں نشے میں دھت ہوجانے تک شراب نوشی کے رجحان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو گہری تشویش کا باعث ہے۔

تصویر: AP

جرمن بچوں اورنوجوانوں میں شراب نوشی کا رجحان خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ وفاقی جرمن حکومت کی منشیات اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 12 سے 17 سال کی درمیانی عمر کے بچوں میں گرچہ پابندی سے شراب کے استعمال میں کمی آئی ہے تاہم نوجوانوں میں نشے میں دھت ہوجانے تک شراب نوشی کا رجحان گہری تشویش کا باعث ہے۔ سب سے زیادہ فکر کا باعث کم سن نوجوان لڑکیوں میں اس عادت کی موجودگی ہے۔ انہوں نے اپنے ہم عمر لڑکوں کو بھی اس سلسلے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

گزشتہ 8 برسوں کے دوران پابندی کے ساتھ بہت زیادہ شراب نوشی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھ کر دوگنا ہوگئی ہےتصویر: AP

وفاقی جرمن حکومت کی انسداد منشیات کی نگراں سابینے بیٹزگ کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ گزشتہ 8 برسوں کے دوران پابندی کے ساتھ بہت زیادہ شراب نوشی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھ کر دوگنا ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ 2007 میں لڑکوں کے مقابلے میں ان کی ہم عمر ایسی لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جنہیں الکوہل کے انتہائی حد تک استعمال کے سبب تشویش ناک حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر ہیلمٹ ہولمن بون کے یونیورسٹی کلینک کے بچوں کے اعصابی امراض کے مرکز میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جرمن معاشرے میں اکثر آزادی اور روشن خیالی کے تصورکی غلط تشریح کی جاتی ہے، اسکا صحیح مفہوم نہیں سمجھا جاتا ۔ نوجوان لڑکیاں اس طرح کے عمل میں ملوث ہونے کو لڑکوں جیسے مساوی حقوق کا حصول سمجھتی ہیں۔

تصویر: AP


ماریون امیلنگ ایک " Up date نامی مرکز میں کام کرتی ہیں۔ یہاں نفسیاتی تربیت کے ذریعے، ان لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے جن میں نشے کا عادی ہونے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس مرکز میں ایک طرف تو نوجوانوں کے اندر شعور بیدار کرنے کی غرض سے گوناگوں پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے دوسری جانب والدین کو بھی صلاح مشورے دیئے جاتے ہیں۔امیلنگ کا کہنا ہے کہ لڑکیاں شراب نوشی محض لڑکوں کے مقابلے میں مساوی حقوق کے حصول کی نمائش کے لئے نہیں کرتیں بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ نشہ آور اشیاء خاص طور سے شراب کے اشتہارات بھی ہیں۔

ان کے بقول الکوہل کی صنعت نے کچھ سالوں پہلے اس بارے میں سوچا کہ کس طرح لڑکیوں کو شراب نوشی کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔ انھوں نے مارکیٹ میں ایسے مشروب متعارف کرائے جن میں شراب کی تلخی کم اور کولا یا لیمن جوس کا ذائقہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان میٹھے مشروبات کو لڑکیوں نے شوق سے پینا شروع کردیا اور اس طرح وہ الکوہل کی تلخی اور اسکے نقصانات کو محسوس کئے بغیر اس کی عادی ہوتی چلی گئیں۔

امیلنگ اور ان کے ساتھی اس بارے میں کافی فکر مند ہیں کہ پھلوں کے جوس کے ذائقے میں بکنے والے یہ مشروبات نوجوانوں خاص طور سے لڑکیوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ پچھلے سال اس قسم کے مشروبات پینے والے کوئی 23 ہزار نوجوانوں کو الکوہل کے مضر اثرات کا شکار ہونے کی وجہ سے مختلف جرمن ہسپتالوں میں داخل کیا گیا تھا۔

کثرت کے ساتھ شراب نوشی جسم میں زہر پھیلا دیتی ہے اور یہ ایسی صورتحال پیدا کر سکتی ہے جس میں انسانی جان کو خطرہ ہو سکتا ہےتصویر: AP


ڈاکٹر ہیلمٹ ہولمن کا کہنا ہے کہ باکثرت شراب نوشی کے اثرات نہایت خوفناک شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ کثرت کے ساتھ شراب نوشی جسم میں زہر پھیلا دیتی ہے اور یہ ایسی صورتحال پیدا کر سکتی ہے جس میں انسانی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ الکوہل کا عادی ہونے کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں جو جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ انسان اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح جسمانی اور نفسیاتی صحت گرتے گرتے انسانوں کو معاشرے میں بھی ایک باوقار زندگی گزارنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔

نوجوانوں میں انتہائی حد تک شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف جرمنی میں گزشتہ چند سالوں کے دوران وفاق اور صوبوں کے سطح پر کئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ مثلاٍ صحت سے متعلق شعور بیدار کرنے کے وفاقی جرمن مرکزی ادارے نے ایک مہم شروع کی ہے جس کا عنوان ہے HALT یعنی اسٹاپ ۔ اس کے تحت نوجوانوں کے اندراس حساس موضوع کے بارے میں احساس جگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حفظان صحت کے ماہرین ان نوجوانوں کی تربیت کی کوشش کرتے ہیں، نشے کے عادی لڑکے اور لڑکیوں کی ایک مظبوط شخصیت کی تشکیل کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ خود کو اس لعنت سے بچا سکیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں