پيشے کے طور پر جرمن فوج میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد ميں پچھلے سال کمی نوٹ کی گئی ہے۔ گزشتہ برسوں ميں اس تعداد ميں اضافہ ہوا تھا تاہم پھر اچانک کمی آ گئی۔
اشتہار
جرمن فوج کا حصہ بننے والے نوجوانوں کی تعداد ميں پچھلے دو سالوں ميں خاطر خواہ کمی نوٹ کی گئی ہے۔ سن 2017 کے مقابلے ميں يہ تعداد پچھلے يعنی سن 2018 ميں لگ بھگ بيس فيصد کم رہی۔ اس بارے ميں رپورٹ اخبار ’نوئے اوسنابروکر زائٹنگ‘ ميں شائع ہوئی۔
سن 2013 سے لے کر سن 2017 کے دوران جرمن فوج ميں شموليت اختيار کرنے والے سترہ سالہ نوجوانوں کی تعداد ميں مسلسل اضافہ نوٹ کيا گيا تھا۔ يہ تعداد سن 2013 ميں 1,152 سے سن 2017 ميں 2,128 تک جا پہنچی تھی۔ ليکن پھر پچھلے سال اس ميں کمی ہوئی اور صرف 1,679 نوجوانوں نے جرمن فوج ميں شموليت اختيار کی۔
جرمن فوج، جسے ’بنڈس ويئر‘ کہا جاتا ہے، نئی بھرتيوں ميں کمی کے حوالے سے کوئی خاص وجہ نہ بيان کر سکی۔ وزارت دفاع کی ايک خاتون ترجمان نے ’نوئے اوسنابروکر سائٹنگ‘ ميں شائع ہونے والی حاليہ رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’فوج ميں بھرتی کی پاليسی اور طريقہ کار ميں تو کوئی تبديلی نہيں آئی ہے۔‘‘
جرمنی ميں بائيں بازو کی سياسی جماعت ’ڈی لنکے‘ سے وابستہ سياستدان نوربرٹ مولر کے مطابق عوامی سطح پر تنقيد ايک بڑی وجہ ہے کہ نوجوان اور ان کے والدين فوج ميں شموليت کی طرف زيادہ دلچسی ظاہر نہيں کرتے۔ وفاقی سطح کے اس قانون ساز نے يہ مطالبہ بھی کيا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے نوجوانوں کی فوج ميں بھرتی بند کی جائے کيونکہ فوجی بيرکوں ميں يوتھ پروٹيکشن سے متعلق قوانين کا احترام مشکل ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ جرمنی ميں فوج پر توجہ اور دفاعی اخراجات ميں اضافہ عوامی اور سياسی سطح پر زيادہ اہم معاملات نہيں۔ علاوہ ازيں ماضی ميں ’بنڈس ويئر‘ اپنے ’روایتی‘ ساز و سامان کی وجہ سے مذاق اور تنقيد کا شکار بھی رہی۔ ماضی ميں ہر نوجوان لڑکے پر لازمی ہوتا تھا کہ وہ يا تو ايک برس فوج ميں گزارے يا پھر ايک سال سماجی شعبے میں کام کرے تاہم يہ قانون سن 2011 ميں خارج کر ديا گيا۔
جرمن فوج ميں شموليت اختيا کرنے کی کم سے کم عمر سترہ برس ہے۔ اور اگر اس سے کم عمری ميں ٹين ايجرز فوج ميں جانا چاہيں، تو انہيں والدين کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ جرمن فوج کے مطابق نئے بھرتی ہونے والے ساٹھ فيصد فوجی ابتدائی چھ ماہ کی ٹرينگ کے دوران ہی اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچ جاتے ہيں۔ اٹھارہ برس سے کم عمر کسی بھی فوجی کو ہتھيار چلانے يا کسی بيرون ملک مشن پر بھيجے جانے کی اجازت نہيں۔
دنیا کی دس سب سے بڑی فوجیں
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔