جرمن وزیرِ خارجہ کا دورہء روس
11 جون 2009اِن ملاقاتوں میں عالمگیر مالیاتی بحران کے خلاف مشترکہ اقدامات کو بھی ایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل رہی۔
اِس موقع پر میدوی ایدف نے بہتر جرمن روسی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا لیکن ساتھ ہی اِس امر کو ہدفِ تنقید بھی بنایا کہ آج کل دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کم ہوتی جا رہی ہے۔
’’ہم دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اچھے ساتھی ملکوں کے طور پر ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ تاہم ہمیں کوشش کرنا ہو گی کہ ہماری معیشتوں کا باہمی اشتراکِ عمل ویسا ہی ہو، جیسا کہ عالمگیر اقتصادی بحران سے پہلے تھا۔‘‘
عالمی سطح پر تخفیفِ اسلحہ کے ضمن میں پوٹین نے کہا کہ روس اصولی طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے لئے تیار ہے۔ اُنہوں نے امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک، جنہوں نے ایٹم بم ایجاد کیا اور استعمال کیا، اگر آج وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ ایٹم بم سے دستبردار ہو سکتے ہیں تو روس اِس پیشرفت کا خیر مقدم کرے گا۔ واضح رہے کہ آج کل امریکہ اور روس اپنے اپنے ایٹمی ذخائر میں کمی کے موضوع پر تبادلہء خیال کر رہے ہیں۔ اِس سال اپریل میں پراگ میں اوباما نے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دُنیا کا تصور پیش کیا تھا، جس کے فوراً بعد روسی صدر میدوی ایدف نے بھی اِس طرح کی دنیا کو ممکن قرار دیا تھا جبکہ عالمی سیاسی ماہرین ایسی کسی پیشرفت کا امکان نہیں دیکھتے۔
کل ماسکو میں شٹائن مائر نے زور دے کر کہا کہ نئے امریکی صدر باراک اوباما روس کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز میں اپنی ایک تقریر میں جرمن وزیر خارجہ نے اپنے میزبانوں پر زور دیا کہ اُنہیں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھ کر امریکی صدر کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لینا چاہیے۔ جواب میں میدوی ایدف نے یورپ میں سلامتی کے نئے ڈھانچوں کی بحث میں جرمنی کے تعمیری کردار کو سراہا۔ روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے شٹائن مائر نے کہا:
’’روس جرمنی اور پوری یورپی یونین کے لئے ایک اہم ہمسایہ ملک ہے اور رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم نازُک اور اہم موضوعات پر پیشرفت کے خواہاں ہیں تو ہمیں اچھے اور سرگرم تعلقات کی ضرورت ہے۔‘‘
قفقاز کے تنازعے کے حوالے سے شٹائن مائر نے کہا کہ جارجیا کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں روس کو تعمیری طرزِ عمل روا رکھنا چاہیے۔ تاہم جرمن وزیر نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اِس حوالے سے جرمنی اور روس کے موقف میں بنیادی اختلافات موجود ہیں۔ شٹائن مائر نے ایک بار پھر اِس بات پر اصرار کیا کہ جارجیا اور ابخازیہ میں اقوامِ متحدہ کے مبصرین تعینات کئے جانے چاہییں۔ تاہم شٹائن مائر کے ساتھ ملاقات میں روسی وزیر خارجہ سیرگئے لاوروف نے کہا، ایسا تبھی ممکن ہے، جب ابخازیہ اور جنوبی اوسیتیہ کی جارجیا سے علٰیحدگی اور اُن کی آزادی کو تسلیم کر لیا جائے۔
شٹائن مائر نے پریس کی آزادی اور انسانی حقوق کے لئے اپنی کوششوں کے اظہار کے طور پر ماسکو حکومت کی جانب ناقدانہ رویے کے حامل اخبار ’’نووایا گزیٹا‘‘ کا بھی دَورہ کیا۔ اِسی اخبار کے لئے مشہور صحافی خاتون آنا پولیٹ کووسکایا بھی کام کرتی تھیں، جنہیں سن 2006ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اِس موقع پر شٹائن مائر نے اخبار کی یادگاری کتاب میں لکھا کہ جمہوریت کیلئے پریس کی آزادی اُتنی ہی ضروری ہوتی ہے، جتنی کہ سانس لینے کے لئے ایک انسان کو ہوا کی۔