نو ماہ قبل جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کا دورہ اسرائیل دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں مزید سرد مہری کا سبب بن گیا تھا۔ اور اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ان کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی۔
اشتہار
اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے ملکی دورے پر آئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل سے ملاقات نہ کرنے کے فیصلے کے نو ماہ بعد گابریئل پہلی مرتبہ تل ابیب پہنچ گئے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد فلسطینی وزیر اعظم محمود عباس سے بھی ملیں گے۔
گزشتہ برس اپریل میں جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے اپنے دورہ اسرائیل کے دوران اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان تنظیموں میں سے ایک ایسی بھی تھی جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کے بارے میں شواہد بھی جمع کرتی ہے۔ تل ابیب حکومت جرمن وزیر خارجہ کی ان ملاقاتوں سے ناخوش تھی تاہم اس کے باوجود زیگمار گابرئیل نے یہ ملاقاتیں منسوخ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کرنے والی لڑکی سوشل میڈیا اسٹار
01:56
اسی کے ردِ عمل میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ کہتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی کہ وہ ’’کسی ایسے شخص کی میزبانی نہیں کر سکتے جو اسرائیلی فوجیوں پر ’الزام تراشی‘ کرنے والے گروپ سے ملاقات کر رہا ہو‘‘۔
اس واقعے کے بعد اسرائیل اور اس کے اہم یورپی اتحادی ملک جرمنی کے مابین سفارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے نو ماہ بعد اب زیگمار گابریئل دوبارہ اسرائیل اور فلسطین کے دورے پر پہنچے ہیں۔ اس مرتبہ گابریئل اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد راملہ بھی جائیں گے جہاں وہ محمود عباس سے بھی ملاقات کریں گے۔
گابریئل اس سے قبل بھی اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ سن 2012 میں مغربی کنارے کے دورے کے بعد انہوں نے اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک پیغام میں اسرائیلی حکومت پر ’نسلی عصبیت‘ برتنے کا الزام عائد کیا تھا۔ برلن حکومت نے اسرائیلی پارلیمان کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تعمیرات کا قانون منظور کیے جانے کے بعد دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ بھی معطل کر دیا تھا۔
ان تمام واقعات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مابین پہلی ملاقات گزشتہ ہفتے ہی ’ورلڈ اکنامک فورم‘ کے موقع پر ہوئی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔ توقع ہے کہ نیتن یاہو آئندہ ماہ جرمن شہر میونخ میں منعقد ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔
اسرائیل کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے پروفیسر گیرالڈ اشٹائنبرگ کے مطابق جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی اسرائیل آمد کا مقصد دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات میں بہتری لانا ہے۔
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔