1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ ملک بدریوں پر طالبان کے ساتھ تعاون کی مخالف

8 جون 2024

وزیر خارجہ کی ترجمان کے مطابق طالبان اپنی حکومت تسلیم کیے جانے کے بدلے کسی بھی ملک بدری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ طالبان پہلے ہی جرائم میں ملوث افراد کی ملک واپسی کے سلسلے میں تعاون پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔

  جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوکتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

جرمن وزارت خارجہ نے سنگین جرائم میں ملوث افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے سلسلے میں افغان طالبان  کے ساتھ تعاون کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں طالبان حکومت بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ برلن میں وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کی ایک ترجمان نے جمعے کے روز کہا، ''طالبان بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے بعد کسی بھی طرح کی ملک بدریاں قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔‘‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''یہ ایک حقیقت ہے کہ جرمن حکومت دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی طرح افغانستان میں طالبان کی ڈی فیکٹو حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ انفرادی معاملات میں 'تکنیکی سطح پر‘ صرف وقتی رابطہ ہوتا ہے۔‘‘

جرمن چانسلر نے سنگین جرائم میں ملوث افراد  کو ملک بدر کر کے واپس  افغانستان اور شام بھجوانے کی تجویز پیش کی تھیتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

چانسلر کی تجویز

جرمن چانسلر اولاف شولس نے جمعرات کے روز ایک بار پھر سنگین جرائم میں ملوث افراد  کو ملک بدر کر کے واپس افغانستان اور شام بھجوانے کی تجویز پیش کی تھی ۔ انہوں نے  پہلی بار یہ  تجویز جرمنی کے شہر مان ہائیم میں ایک اسلام مخالف ریلی میں چاقو کے وار سے ایک پولیس افسر کی حالیہ موت کے بعد پیش کی تھی۔

افغانستان میں حکمران طالبان نے اس سے قبل  بیرون ملک سے  افغان مجرموں اور خطرناک افراد کی واپسی کے سلسے میں تعاون پر آمادگی ظاہر کی تھی۔  طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے جمعہ کے روز ایکس پر لکھا، ''امارت اسلامیہ افغانستان جرمن حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ معاملات کو معمول کے قونصلر تعلقات اور دو طرفہ معاہدے کی بنیاد پر ایک مناسب طریقہ کار کے اندر رہتے ہوئے طے کریں۔‘‘

اگست 2021 میں کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جرمنی میں افغانوں کی ملک بدری پر پابندی عائد ہے۔  اس سے پہلے بھی یہ معاہدہ تھا کہ صرف مرد خاص طور پر جرائم پیشہ اور ایسے افراد، جن  سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے، کو زبردستی واپس کیا جائے گا۔  جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ ملک بدری کا مطلب جرمنی میں مجرموں کے لیے استثنیٰ نہیں ہے۔ ترجمان کے مطابق، ''قتل کے مقدمات میں جرمنی میں کم از کم 10 سال قید کی سزا کے بعد ملک بدری پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اگست 2021 میں کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جرمنی میں افغانوں کی ملک بدری پر پابندی عائد ہےتصویر: Mohsen Karimi/AFP/Getty Images

گرین پارٹی ملک بدریوں کی مخالف 

جرمن حکومتی اتحاد میں شامل گرین پارٹی کے نمائندے افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے اور طالبان کے ساتھ تعاون کے خلاف ہیں۔ جرمنی کے کمشنر برائے انسانی حقوق اور گرین پارٹی کی رکن لوئیس امٹسبرگ نے جمعہ کو آن لائن شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں Taz اخبار کو بتایا، ''افغانستان میں ہر اخراج اور ہر ملک بدری کے لیے اس دہشت گرد حکومت کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہو گی اور اس طرح طالبان کو عملی طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔‘‘

گرین پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جولین پہلکے نے جرمن چانسلر اولاف شولس  کی تجویز کو ''غیر حقیقت پسندانہ‘‘ اور قانونی طور پر ناقابل عمل قرار دیا۔ افغان امور کے تجزیہ کاروں کے نیٹ ورک کے شریک بانی تھامس روٹیگ کے مطابق طالبان ملک بدریوں سے فائدہ اٹھا کر مغربی ریاست کے ساتھ تعاون کرنے کے موقع کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں، جسے ان کی ساکھ میں اضافے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل جرمنی میں پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والا گروپ پرو ایزول جرمن چانسلر اولاف شولس کی سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو افغانستان اور شام واپس بھیجنے کی تجویز دینے کی مذمت کر چکا ہے ۔ پرو ایزول کے مینیجنگ ڈائریکٹر کارل کوپ نےجمعے کے روز جرمن اخبار آگس برگر آلجیمین میں شائع کردہ بیان میں کہا گیا ہے،''بین الاقوامی قانون واضح طور پر افغانستان اور شام میں کسی بھی ملک بدری کی ممانعت کرتا ہے۔‘‘

ش ر⁄ ع ب (ڈی پی اے)

طالبان کے دو سالہ دورِ اقتدار میں خواتین کو درپیش مسائل

02:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں