جرمن وزیر خارجہ کا دورہ بھارت اور خطے کے مسائل
4 اکتوبر 2010جرمن وزیر خارجہ کے دورے، بھارت جرمن تعلقات ،جنوبی ایشیا کی موجودہ صورت حال اور بھارت کے زیر انتطام ریاست جموں و کشمیر میں حالیہ شورش کے حوالے سے یہاں وفاقی جرمنی کے سفیر تھامس مٹوسیجرمنی کے وزیر خارجہ مسٹر گیڈو ویسٹر ویلے سترہ سے انیس اکتوبر تک بھارت ک نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ انٹرویو کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں۔
جرمن سفیر نے کشمیر کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کو ہر ممکن مدد کی پیش کش کی ۔ انہوں نے کہا "ہمیں امید ہے کہ کشمیر کے عوام مستقبل میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں اور یہ بات بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے ۔ انہیں اس معاملے میں ہم سے کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر وہ ہم سے کوئی مشورہ طلب کرتے ہیں تو ہم وادی کشمیر میں ممکنہ مدد اور تعاون کرنے کے لئے تیا ر ہیں"۔
جرمن سفیر نے کہا کہ "میں 80 کی دہائی میں چھٹیاں منانے کشیمر جاتا رہا ہوں لیکن آج کشمیریوں کو ایسی پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے او ر انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ ہم ان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار ہیں جو ان کے مفاد میں ہو"۔ جرمن سفیر نے مزید کہا کہ جرمنی او ر یوروپی یونین کے دیگر ممالک کشمیریوں کی تکالیف کا ازالہ کرنے کے لئےمختلف پروجیکٹس پر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
"ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم کشمیری عوام کی ترقی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے باہر سےکسی طرح اُن کی مدد کریں۔ ہم یہاں اپنے سفارت خانے میں بھی اس پر غور کررہے ہیں جس میں کشمیر یونیورسٹی میں جرنلزم کے شعبے میں مدد کرنے کا ایک پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ " جہاں تک اس تنازع کا سوال ہے تو یہ بھارت اورپاکستان کو طے کرنا ہے۔ وہ ہم سے مشورے کے محتاج نہیں ہیں۔''
جرمن سفیر نے پاکستان میں چین کے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کومعلوم ہوگا کہ"چین اس خطے اور دنیا کا ایک اہم ملک ہے ۔ انہوں نے کہا" چین کو اپنے مغربی صوبوں میں سخت گیر اسلام پسندوں سے خطرہ ہے۔ وہ وسطی ایشیاء میں طالبنائزیشن سے اتنے ہی خائف ہیں جتنے ہم ہیں ۔ اس لئے اس خطے کو مستحکم کرنے میں پاکستان کا اہم رول بنتا ہے"۔
پاکستان کے حوالے سے جرمن سفیر کا خیال ہے کہ پاکستان میں استحکام سب کے مفاد میں ہے اور وہاں عدم استحکام سے حالات تباہ کن ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ" بدقسمی سے پاکستان میں بہت سارے دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ا س کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں القائدہ اور اس سے وابستہ گروپ اب بھی سرگرم ہیں ۔ اس لئے ہمیں اس معاملے میں کافی چوکنا رہنا چاہئے اور انتہاپسندی کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھیکنے کا عہدکرنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ لیکن اسی کے ساتھ ہمیں پاکستان کی ترقی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔"
اس سوال کے جواب میں کیا وہ یہ مشورہ بھارت کو بھی دے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ" بھارت نے بہت مثبت رول ادا کیا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ دونوں ملکوں نے مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا ہے"۔انہوں نے کہا کہ" حالانکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کئی بار مایوسیاں اور ناخوشگوار واقعات آتے رہے لیکن ہم اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ من موہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان کے تئیں تحمل اور اعتدال پسند ی کا رویہ اختیار کیا اور کسی اشتعال انگیزی میں نہیں پڑے۔ حتٰی کہ سیلاب کی تباہی کے دوران پاکستان کی مدد بھی کی۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔"
جرمن سفیر نے افغانستان کی تعمیر نو میں بھارت اور پاکستان کے رول کی تعریف کی۔ انہوں نے کہاکہ" افغانستان کے استحکا م کے لئے پاکستان کا رول کافی اہم ہے"۔ انہوں نے کہا کہ" افغانستان کے سلسلے میں جرمن او ر بھارت کے مفادات مشترکہ ہیں۔ تاہم ہمیں یہ ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان کسی عدم استحکام کا شکار نہ ہو جائے کیوں کہ یہ پورے خطے کے لئے تباہی کا موجب ہوگا"۔
حالانکہ جرمن وزیر خارجہ کے دورے سے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی' اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے سلسلے میں کئی امیدیں پیدا ہوئی ہیں وہیں یورپی کمپنی یوروجیٹ کی پیش کش کو مسترد کرکے 650 ملین ڈالرکا لائٹ کامبیٹ ایرکرافٹ طیاروں کے انجن کا سودا امریکی کمپنی جنرل الیکٹرکس کودے دئے جانے سے جرمنی کو مایوسی ہوئی ہے۔ جرمن سفیر نے کہا کہ "یہ بھارت کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرناچاہتے ہیں"۔
یورو جیٹ نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ "ہم نے جدید ترین اور صلاحیتوں سے لیس انجن کی نہایت ہی مناسب قیمت پیش کی تھی لیکن اب ہم بھارت کے فیصلے کے مضمرات پر سنجیدگی سے غور کریں گے"۔ جرمنی اب دونوں ملکوں کے درمیان 10.4 بلین ڈالر کے 126 جنگی طیارے سپلائی کرنے کے سودے پر آس لگائے ہوئے ہے۔ جرمن سفیر نے کہا ہماری پیش کش حریف کمپنیوں کے مقابلے بہت زیادہ بہتر ہیں ۔ ہم صرف جنگی طیارے بیچنے کی بات نہیں کرتے بلکہ ہم بھارت کے ساتھ مشترکہ طور پر اسے تیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہم بنگلور میں ایک ریسرچ او ر ڈیولپمنٹ سنٹر قائم کریں گے۔ ہمend user monitoring معاہدے پر بھی اصرار نہیں کریں گے۔
جرمن سفیر نے اقوام متحدہ میں اصلاحات اور سلامتی کونسل میں توسیع کی بھارت کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جی۔20' جی۔8 اور اس طرح کی دیگر عالمی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے سلامتی کونسل کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے اس میں اصلاح اور توسیع کی اشد ضرورت ہے۔ جرمن سفیر نے مشورہ دیا کہ" ہمارا آئیڈیا ہے کہ سلامتی کونسل 25 اراکین پر مشتمل ہونی چاہئے جس میں جرمنی ' جاپان' بھارت اور برازیل کے علاوہ دو افریقی ملکوں کو مستقل رکنیت دی جائے "۔
رپورٹ: افتخارگیلانی/ نئی دہلی
ادارت: کشور مصطفیٰ