جرمن وزیر خزانہ کی روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی وکالت
27 جولائی 2014
جرمن اخبار بلٹ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے کہا، ’’اقتصادی مفادات اولین ترجیح نہیں ہيں۔ پہلی ترجیح پائیدار امن اور استحکام ہے۔‘‘ جرمن وزیر خزانہ کا یہ بیان بروز اتوار ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب جمعے کے دن ہی یورپی یونین نے روس کے خلاف پہلی مرتبہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے ایک ابتدائی سمجھوتے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرقی یوکرائن میں ملائیشیائی ایئر لائنز کے ایک مسافر بردار طیارے کی تباہی کے بعد یورپ اپنے مؤقف میں سختی لے آیا ہے۔
یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت جرمنی نے گزشتہ برس روس کو 36 بلین یورو کی مصنوعات برآمد کی تھیں، جو یورپ سے روس برآمد کی جانے والی مجموعی مصنوعات کا ایک تہائی بنتی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ یوکرائنی تنازے کے بعد رواں برس کے ابتدائی چار ماہ میں جرمنی سے روس جانے والی مصنوعات کی شرح میں چودہ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ کچھ بزنس گروپس نے خبردار کیا ہے کہ روس کے ساتھ تجارت میں کمی کی وجہ سے جرمنی میں روزگار کے 25 ہزار مواقع خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
تاہم جرمن وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اگر چانسلر میرکل کی کابینہ روس پر پابندیاں عائد کرنے سے صرف اس لیے احتراز کرتی ہے کہ اس سے جرمنی کی داخلی معیشت کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ چانسلر میرکل نے اپنی کابینہ کے لیے غلط وزراء کا انتخاب کر رکھا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ بدامنی اور عدم استحکام اقتصادی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ڈیئر اشپیگل کی طرف سے جرمنی میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق باون فیصد جرمن شہری روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ہیں، چاہے اس کے نتیجے میں ملازمتوں کے مواقع خطرے میں بھی پڑ جائیں۔ تاہم انتالیس فیصد نے ایسی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔
یوکرائن تنازے میں ماسکو حکومت کے منفی کردار کی وجہ سے یورپی یونین پہلے ہی متعدد روسی اعلیٰ اہلکاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ ان کے اثاثے بھی منجمد کرنے پر اتفاق کر چکی ہے۔ شوئبلے کے مطابق ان پابندیوں کی وجہ سے روسی کرنسی کی قدر میں گراوٹ پیدا ہوئی اور اس کا ملکی بجٹ بھی خسارے کا شکار ہوا ہے۔
امریکا اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ سترہ جولائی کو مشرقی یوکرائن میں ملائیشیائی ایئر لائنز کے مسافر بردار طیارے کو وہاں فعال روس نواز باغیوں نے راکٹ حملے کا نشانہ بنایا تھا اور روس نے ہی ان باغیوں کو یہ راکٹ فراہم کیے تھے۔ تاہم روس نواز باغیوں نے ایسے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہہ رکھا ہے کہ کییف حکومت اس حملے کی ذمہ دار ہے۔ ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو بھاری اسلحہ فراہم نہیں کیا ہے۔