جرمن وزیر داخلہ کا ملکی سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کا مطالبہ
صائمہ حیدر
19 مارچ 2018
جرمنی کے نئے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ملکی سرحدوں کی نگرانی بڑھانے اور بارڈر کنٹرول کا مطالبہ کر کے ایک نئے تنازعے کی ابتدا کر دی ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین داخلی بارڈر کنٹرول میں نرمی کی خواہاں ہے۔
اشتہار
جرمن روزنامے’دی ویلٹ اَم زونٹاگ‘ میں کل بروز اتوار شائع ہوئے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے ایک بیان کے مطابق یورپی یونین بیرونی سرحدوں کی نگرانی میں ناکام ہو چکی ہے۔ زیہوفر نے یہ بھی کہا کہ جرمنی کو اپنا بارڈر کنٹرول بڑھانے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سرحدی نگرانی میں تبدیلی کی ضرورت کہاں ہے۔
زیہوفر نے شینگن معاہدے کو معطل کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا جس کی رُو سے اس زون میں شامل یورپی ممالک میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔ جرمن وزیر داخلہ نے اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو بتایا کہ اب یورپی ممالک کے درمیان اندرونی سرحدوں پر بارڈر کنٹرول سخت کیا جانا بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یورپی یونین بیرونی سرحدوں کے کنٹرول میں ناکام رہی ہے۔ زیہوفر کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل قریب میں شینگن معاہدے کو قابل عمل نہیں دیکھتے۔
جرمنی نے اس سال بارہ مئی تک آسٹریا کے زمینی بارڈرکے ساتھ اور جرمنی میں یونان سے آنے والی پروازوں پر عارضی کنٹرول نافذ کر رکھا ہے۔ یورپی کمیشن کے مطابق یہ کنٹرول یورپ کی سلامتی کی صورتحال اور مسلسل جاری دیگر تحریکوں سے لاحق خطرات کے تناظر میں نافذ کیا گیا ہے۔
زیہوفر کا اندرونی سرحدوں پر کنٹرول سخت کرنے کا یہ بیان رواں برس فروری میں یورپی یونین کے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جرمنی اور یورپی بلاک کے دیگر چار ممالک، سویڈن، ناروے، آسٹریا اور ڈنمارک بارہ مئی کے بعد سے اپنی اندرونی سرحدوں پر سے کنٹرول ختم کر دیں۔
زیہوفر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ یورپی یونین کو مشرقی یورپی ممالک میں کوٹے کے تحت مہاجرین کی تقسیم کے حوالے سے ’لیکچر‘ دینے والا لہجہ ترک کرنا چاہیے۔
زیہوفر کا تعلق میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی باویریا میں ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے ہے۔ علاوہ ازیں ہورسٹ زیہوفر گزشتہ دنوں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ بطور وزیر داخلہ ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کے سلسلے کو تیز کر دیں گے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔