جرمن وزیر دفاع اور اُن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ: ایک تبصرہ
18 فروری 2011کسی بھی سیاستدان کا سب سے بڑا سرمایہ اُس کا اعتبار ہوا کرتا ہے، اعتبار چلا جائے تو پھر کیریئر ختم ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔ کرسچین سوشل یونین سی ایس یُو کے سیاستدان کارل تھیوڈور سُو گٹن برگ کا، جو آج کل کی جرمن سیاست کے سُپر سٹار ہیں، اعتبار جزوی طور پر جاتا رہا ہے۔
بہت واضح طور پر ایسا نظر آ رہا ہے کہ اُنہوں نے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھتے وقت اُس میں دیگر مصنفین کے پورے کے پورے پیراگراف شامل کر لیے ہیں، بغیر یہ ظاہر کیے کہ وہ کہیں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اپنے مقالے کے دیباچے ہی میں سوگٹن برگ نے پاساؤ شہر کی ایک محققہ کے متن سے استفادہ کیا ہے، جس پر یہ محققہ بجا طور پر ناراض بھی ہے۔
اِس طرح گٹن برگ، جو ہمیشہ ’تہذیب اور شائستگی‘ کی پُر زور وکالت کرتے ہیں، اپنے ہی طے کردہ اونچے معیارات پر پورا نہیں اتر سکے۔ جو شخص دوسروں سے درست طرزِ عمل اور ایمانداری کا متقاضی ہو، اُسے پہلے خود ایسا کر کے دکھانا چاہئے، خاص طور پر وزیر دفاع کی حیثیت میں۔ اب تک اگر گٹن برگ کو کسی معاملے سے متعلق تمام تر تفصیلات مبینہ طور پر مکمل حالت میں پیش نہیں کی جاتی تھیں، تو وہ خود اِس پر بہت زیادہ جذباتی ردعمل ظاہر کرتے تھے اور اِسی بناء پر اُنہوں نے کئی سرکردہ ساتھی کارکنوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا بھی دیا۔
اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ 39 سالہ گٹن برگ خود ایسی چیزوں کا زیادہ خیال نہیں رکھتے۔ اِس بار اگر اُن کی ساکھ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اِس کی ذمہ داری صرف اور صرف خود اُن پر عائد ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اُنہوں نے اپنے فوری رد عمل میں اِن الزامات کو ’من گھڑت‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
الزامات کی یہ گرد بیٹھ جانے پر ممکن ہے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالے میں مبینہ طور پر ہو بہو نقل کیے گئے پیراگراف بے قابو ہو جانے والی ایک چیز کو پھر سے اپنی جگہ پر واپَس لے آئیں اور وہ یہ کہ عوام میں گٹن برگ کی مقبولیت کی اونچی شرحیں اُنہیں اتنی بلندی پر لے گئی تھیں، جہاں معاملات خطرناک شکل اختیار کر گئے تھے۔
عوام اِس نوجوان اور آگے بڑھنے کے شدید خواہش مند وزیر سے حد سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر بیٹھے تھے۔ اب جا کر پتہ چلا کہ اِس سُپر مین کی حالت بھی دوسروں سے بہتر نہیں ہے۔ سوگٹن برگ کو تیزی سے حاصل ہونے والی مقبولیت اور عروج کبھی کبھی خود بھی بہت عجیب اور پُر اَسرار لگتا تھا، ایسے میں ہو سکتا ہے کہ یہ دھچکہ اُن کے لیے کچھ افاقے کا باعث بنے۔
تبصرہ:نینا ویرک ہوئیزر/ امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ