جرمن وزیر کا انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف بحری مشن کا دورہ
شمشیر حیدر20 اپریل 2016
وفاقی جرمن وزیر دفاع اُرزلا فان ڈیئر لایئن بحیرہ ایجیئن میں انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے تعینات جرمن فوجی مشن کا جائزہ لینے کے لیے دو روزہ دورے پر آج بدھ کے روز ’بون‘ نامی جرمن بحری بیڑے پر پہنچ گئیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمنی کی خاتون وزیر دفاع کے اس دورے کا مقصد جرمن بحریہ کی سرگرمیوں اور بحیرہ ایجیئن کی صورت حال کا ذاتی طور پر جائزہ لینا ہے۔
جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامہ ’بلڈ‘ کے مطابق ان کے دورے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ترکی اور یونان کے بہتر تعاون سے نیٹو کی جانب سے انسانوں کے اسمگلروں کو روکنے کے لیے شروع کیے گئے بحری مشن کے ذریعے بحیرہ ایجیئن کی نگرانی میں مزید بہتری لائی جائے۔
مہاجرین کے بحران کے دوران یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی اکثریت بحیرہ ایجیئن کے خطرناک سمندری راستوں کے ذریعے ہی ترکی سے یونان پہنچی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یورپ کے مطابق تارکین وطن اور انسانوں کے اسمگلروں کو روکنے کے لیے ترک ساحلی محافظ اور ترک فوج نیٹو کی بہت کم مدد کر رہے ہیں۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
روزنامہ ’بلڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے مہینے میں تارکین وطن کی 27 کشتیاں بحیرہ ایجیئن کے ذریعے یونان کی جانب روانہ ہوئیں تاہم ترک سکیورٹی اہلکاروں نے ان میں سے صرف نو کشتیوں کا پیچھا کیا۔
ترکی اور جرمنی کی درخواست پر حال ہی میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے شروع کیا گیا یہ بحری مشن اب تک بہت محدود پیمانے پر سرگرم ہے۔ نیٹو اہلکار صرف یونانی جزیروں لیسبوس اور Chios کے ساحلوں کے قریب تعینات ہیں۔
’بون‘ نامی جرمن بحری جہاز بھی نیٹو مشن کے تحت مارچ کے آغاز سے بحیرہ ایجیئن کی نگرانی پر مامور ہے۔ جرمن بحری جہاز لیسبوس سے ترکی کے ساحل تک نگرانی کرتا ہے اور جمع کردہ معلومات یونان اور ترکی کے علاوہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی نگران ایجنسی ’فرنٹیکس‘ کو بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اس مشن کا مقصد پناہ گزینوں کی کشتیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے انہیں یونان کی جانب سفر کرنے سے روکنا ہے۔
بحیرہ ایجیئن کی نگرانی اور یورپ اور ترکی کے مابین تارکین وطن کی واپسی کا معاہدہ طے پانے کے بعد خطرناک سمندری سفر کر کے یونان پہنچنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم انسانوں کے اسمگلر اب بھی نیٹو اور ترک حکام کی نظروں سے بچ کر تارکین وطن کو یونانی جزیروں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔