جرمنی میں تارکین وطن افراد کے تحفظِ حقوق کی الائنس نے جرمن وزیر داخلہ زیہوفر سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ نسل پرستی کی مذمت کریں یا اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ اس اتحاد کے مطابق اس تناظر میں انہیں جلد فیصلہ کر لینا چاہیے۔
اشتہار
جرمن میں تارکین وطن پس منظر کے حامل افراد کے لیے فعال مختلف گروپوں کے اتحاد ’نیو جرمنز‘ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو ملک کی اقدار کا دفاع کرنا چاہیے یا اس عہدے سے الگ ہو کر کسی اور کو یہ منصب سنبھالنے کا موقع دے دینا چاہیے۔ اس الائنس کے مطابق جرمنی میں نسل پرستی اور نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
سو سے زائد گروپوں پر مشتمل اتحاد ’نیو جرمنز‘ نے ہورسٹ زیہوفر کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اس خط میں وزیر داخلہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ’اس ملک میں مزید تقسیم پیدا کی ہے‘۔
اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’بطور شہری ہم پریشان ہیں۔۔۔ ہم پریشان ہیں کیونکہ دائیں بازو کے انتہا پسند خبروں میں شہ سرخیاں بن رہے ہیں، غیر ملکیوں کو ملک سے نکل جانے کا کہہ رہے ہیں اور یہ دیکھ کر دھچکے کی کیفیت میں ہیں کہ کچھ لوگ ہٹلر والا سیلیوٹ کر رہے ہیں‘‘
اس خط کے متن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ غیر ملکی افراد اور ان کے بچے اب جرمنی میں کھلے عام اور آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے سے خوفزدہ ہیں۔
کیمنٹس اور کوئتھن میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں ’نیو جرمنز‘ نے ہورسٹ زیہوفر کو ارسال کردہ خط میں مزید کہا، ’’وزیر داخلہ کو ملک مزید تقسیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کی بنیادی اقدار کے مطابق سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ یا پھر دفتر کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ کوئی اور اس منصب کی ذمہ داریاں نبھا سکے۔‘‘
تارکین وطن کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو ملک، آزادی اظہار اور جمہوریت کے تمام دشمنوں کی کھلے عام مذمت کرنا چاہیے۔ مزید لکھا گیا گیا، ’’لیکن بدقسمتی سے آپ ایسا نہیں کر رہے۔ یوں آپ دانستہ طور پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسئلہ ہم ہی ہیں۔‘‘
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔