جرمن ٹین ایجر لڑکی کا قتل، افغان مہاجر کو ساڑھے آٹھ سال قید
3 ستمبر 2018
ایک ٹین ایجر جرمن لڑکی کو قتل کرنے کے جرم میں جرمن عدالت نے ایک افغان مہاجر کو ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس سے جرمنی میں مہاجرین کے حوالے سے پالیسی پر بحث از سر نو گرم ہو گئی تھی۔
اشتہار
جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں آج ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک تارک وطن کو ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزا اسے گزشتہ برس دسمبر میں کانڈل میں ایک جرمن کم عمر لڑکی کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر سنائی گئی ہے۔
اس قتل کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مخالفین نے مہاجرین کے حوالے سے اُن کی پالیسی پر کڑی تنقید کی تھی اور مہاجرین مخالف نظریات کی حمایت میں بیان دیے تھے۔
پندرہ سالہ میا وی کو اس کے سابق بوائے فرینڈ عبدل ڈی نے ایک ڈرگ سٹور میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس تارک وطن کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق میا وی پر روز مرہ استعمال کے ایک بیس سینٹی میٹر لمبے چاقو سے سات مرتبہ حملہ کیا گیا تھا۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ دونوں کئی ماہ تک ملتے رہے تھے اور گزشتہ برس دسمبر میں میا نے اس تعلق کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ عبدل ڈی اور میا وی کے اس تعلق کے ختم ہونے کے بعد میا اور اس کے والدین نے عبدل ڈی کی جانب سے دھمکی آمیز رویے اور ہراساں کیے جانے کی شکایت پولیس میں درج کرائی تھی۔
وکلاء کا ماننا ہے کہ عبدل ڈی نے یہ کارروائی حسد میں آ کر کی اور وہ میا سے بریک اپ کا انتقام لینا چاہتا تھا۔
عبدل ڈی سن 2016 کے موسم بہار میں جرمنی پہنچا تھا اور اس نے خود کو بطور تنہا نا بالغ مہاجر رجسٹر کرایا تھا۔ پہلے اس تارک وطن کو رائن لینڈ پلاٹینٹ کی ریاست کے ڈسٹرکٹ گمرس ہائیم کے یووی نیلے کیئر انسٹی ٹیوٹ میں رکھا گیا تھا اور بعد ازاں نوئے شٹڈ کے شہر میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں کانڈل میں واقع اسکول میں اس کی ملاقات میا وی سے ہوئی تھی۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔