متعدد جرمن پائلٹ پناہ گزینوں کو ملک بدر کی جانے والی خصوصی پروازوں کے سلسلے میں اپنی خدمات انجام نہیں دینا چاہتے۔ جرمن میڈیا
اشتہار
جرمن حکومت نے بتایا ہے کہ ’پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کی متنازعہ پروازوں کو اڑانے کے لیے متعدد پائلٹوں نے انکار کر دیا ہے۔‘ بعد ازاں جرمن میڈیا کے مطابق حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزین کی واپسی کے لیے پائلٹوں کے انکار کے بعد 222 پروازوں کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ واضح رہے ماضی میں جرمن حکومت کی جانب سے افغانستان کو ایک محفوظ ملک قرار دیا جا چکا ہے۔
رواں سال جرمنی کی مرکزی ایئرلائن لفتھانسا اور یورو ونگز کے تقریبا 85 پائلٹوں نے جنوری سے ستمبر کے مہینوں کے دوران ملک بدری کی پروازوں کو اڑانے سے انکار کیا تھا۔ جرمن شہر ڈسلڈورف کے ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی 40 متنازعہ پروازوں کو بھی شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم منسوخ کی جانے والی دیگر 140 پروازیں جرمنی کے مصروف ترین ہوائی اڈے فرینکفرٹ سے روانہ ہونا تھیں۔’مہاجرین ایک ہزار یورو لیں اور اپنے وطن واپس جائیں‘
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
ملک بدری میں اضافے کے باوجود جرمنی مہاجرین کے لیے اہم منزل ہے
یورپی یونین کے 27 ممالک میں جرمنی نے سب سے زیادہ پناہ گزین کی درخواستوں کا فیصلہ سنایا ہے۔ جرمنی کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 2017 کے ابتدائی چھ ماہ میں 388,201 پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ تاہم جرمنی میں ملک بدری کے سلسلے میں تیزی کے باعث مہاجرین کی جانب سے مسترد شدہ درخواستوں کے خلاف اپیل میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔ جرمنی کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے کیے گئے ہر تیسرے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال ایسی اپیلوں کی تعداد دگنی دیکھنے میں آئی ہے۔ شمالی جرمنی کے براڈکاسٹر ’این ڈی آر‘ کے مطابق رواں سال مسترد درخواستوں کے خلاف اپیل کی وجہ سے صرف برلن صوبے کو19 ملین یورو کا اضافی خرچ اٹھانا پڑا ہے، جو کہ گزشتہ سال سے نسبت 7.8 ملین یورو زیادہ ہے۔
افغان ساتھیوں کی ملک بدری رکوانے کے لیے جرمن طلبہ سرگرم
بعد ازاں مسترد درخواستوں کے خلاف اپیل کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ملک بدری میں تیزی کی جارہی ہے۔ جس کی ایک مثال جرمن حکومت کی جانب حال ہی میں متعارف کروایا جانے والا وہ منصوبہ ہے، جس کے مطابق اگلے سال فروری تک رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کو 3000 یورو تک کا انعام دیا جائے گا۔