کووڈ انیس کے بحران نے صرف ہوابازی کی صنعت کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ اس دوران پروازوں کی کمی کے باعث پائلٹ بھی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ جرمنی میں بعض پائلٹ کاک پٹ کے بجائے اب ٹرین ڈرائیور کی سیٹ سنبھالنے پر مجبور ہیں۔
اشتہار
ہوابازی کی عالمی صنعت اور خاص طور پر پائلٹ ابھی تک کورونا وبا سے پیدا شدہ صورت حال کے سبب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ رواں مہینے کے دوران یورپ میں ایک تہائی مسافر بردار طیارے پرواز کرنے کے بجائے زمین پر ہی کھڑے رہے۔ جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس مرتبہ رواں ماہ بروز چار مئی اکیاسی فیصد تک پروازیں غیر فعال رہیں۔ یورپی پائلٹ یونین (ای پی اے) نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کورونا وبا پھوٹنے سے قبل یورپ میں موجود تقریباﹰ 65 ہزار کاک پٹ ملازمین میں سے 18 ہزار اپنی ملازمتیں کھو سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ لفتھانزا کمپنی خسارے کی وجہ سے سن 2022 تک 1200 کاک پٹ ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
فضائی کمپنیوں کا اب کیا ہو گا؟
ایوی ایشن کی صنعت پر کورونا وائرس کے انتہائی تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔ جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کو حکومت کی مالی امداد ملنے والی ہے۔ ناقدین اس پر ناخوش ہیں۔ تاہم فضائی کمپنیوں کے لیے ریاستی امداد کوئی نئی بات نہیں۔
تصویر: AP
امداد چاہیے، مداخلت نہیں
جرمن حکومت ہوائی کمپنی لفتھانزا کو نو بلین یورو کی امداد دے رہی ہے۔ اس امداد کے بعد برلن حکومت لفتھانزا کے بیس فیصد حصص کی مالک بن جائے گی اور اس شرح میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے واضح کیا ہے کہ مالی امداد کے باوجود حکومت کی جانب سے کمپنی کے کارپوریٹ فیصلوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اسمارٹ ونگز کی اسمارٹ ڈیل
چیک جمہوریہ کی حکومت ہوائی کمپنیوں کے گروپ اسمارٹ ونگز پر مزید کنٹرول کی خواہشمند ہے۔ یہ چیک ایئر لائنز کی بنیادی کمپنی ہے۔ چیک وزیر صنعت کا کہنا ہے کہ حکومت اسمارٹ ونگز کا مکمل کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ دوسری جانب اس کمپنی کے ڈائریکٹرز نے واضح کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس بحران کے تناظر میں صرف مدد کے خواہاں ہیں اور کچھ نہیں چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ریاست سے اور مدد درکار ہے!
پرتگال کی قومی ہوائی کمپنی ٹٰی اے پی (TAP) اپنی بقا کے لیے حکومت سے مالی قرضہ چاہتی ہے۔ ملازمین مزید مالی مدد کے ساتھ حکومتی کنٹرول کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پرتگالی وزیر اعظم ٹی اے پی کو قومیانے کا عندیہ دی چکے ہیں، ویسے اس کمپنی کے پچاس فیصد حصص پہلے ہی حکومت کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture alliance/M. Mainka
مدد کی بہت ضرورت نہیں
ناروے کی بجٹ ایئر لائن یا سستی ہوائی کمپنی نارویجیئن کو حکومت سے بلاواسطہ امداد ملی تو ہے لیکن یہ کمپنی اب تشکیل نو کے مشکل فیصلے کرنے میں مصروف ہے۔ ایسا امکان ہے کہ انجام کار یہ ہوائی کمپنی ریاستی انتظام میں چلنے والے بینک آف چائنا کے کنٹرول میں آ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Mainka
سنگاپور ایئر لائنز غریب ہوتی ہوئی
رواں ماہ کے اوائل میں قیام کے اڑتالیس برسوں بعد سنگاپور ایئر لائنز نے پہلی مرتبہ بڑے خسارے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بیشتر ہوائی جہاز کھڑے ہیں۔ حکومت سنگاپور ایئر لائنز کے نصف سے زائد حصص کی مالک ہے۔
تصویر: Singapore Airlines
خراب حالات کی شروعات
خلیجی ممالک کی ریاستی ملکیت کی بڑی ایئر لائنز ایمیریٹس، قطر اور اتحاد کو دنیا بھر میں کئی حریف ہوائی کمپنیوں کا سامنا ہے۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی ایئر لائنز کو حالیہ ایام میں داخلی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: Emirates Airline
حکومتی کنٹرول معمول کی بات
ہوائی کمپنیوں کے گروپ ایروفلوٹ میں روسی قومی ایئر لائنز ایروفلوٹ بھی شامل ہے۔ ایروفلوٹ کے اکاون فیصد سے زائد حصص کی مالک رشئین فیڈریشن ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہوائی کمپنیوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے اور ان میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والی ہوائی کمپنیوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Medina
7 تصاویر1 | 7
اپنی پسندیدہ ترین ملازمت سے محرومی
کورونا وبا کے باعث جنم لینے والا ہوابازی کی صنعت کا معاشی بحران ختم ہونے میں کافی وقت درکار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایئرلائن پائلٹ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے روزگار کے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔ دریں اثناء جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں ریلوے کمپنیاں، ہانگ کانگ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور آسٹریلیا میں چارٹر بس آپریٹر پروفیشنل ڈرائیوروں کی شدت سے تلاش میں ہیں۔ نتیجتاﹰ زیادہ سے زیادہ ایئرلائن پائلٹ اپنا پیشہ تبدیل کر رہے ہیں۔
یاد رہے جرمن ریلوے کمپنی ڈوئچے بان کو کورونا وبا سے پہلے ہی ٹرین ڈرائیوروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، جس کی وجہ سے ٹرینوں کی آمدورفت بھی اکثر تاخیر کا شکار رہتی تھی۔ اب شاید یہ بے روزگار ایئرلائن پائلٹ ریلوے کمپنیوں میں ٹرین ڈرائیوروں کی کمی کو پورا کر سکیں گے۔
اشتہار
ٹرین ڈرائیور کی ملازمت کے لیے پائلٹ موزوں ترین
پائلٹس عام طور پر تربیت یافتہ اور قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ ٹرین ڈرائیور شعبے کے لیے بھی ایسی ہی پیشہ وارانہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ ڈوئچے بان نے جرمن خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان کو اب تک 1500 پائلٹوں اور فضائی عملے کے اراکین کی طرف سے ملازمت کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ اِن میں سے اب تک 280 افراد کو ملازمت فراہم کی جا چکی ہے، جن میں سے 55 پائلٹ ہیں۔
ایئرلائن پائلٹ اور ٹرین ڈرائیور کی آمدن میں فرق
جرمن ریلوے کمپنی ڈوئچے بان کے اعداد و شمار کے مطابق ایک تربیت یافتہ ٹرین ڈرائیور کی سالالہ آمدن 44 سے 52 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) ہوتی ہے، جس میں اضافی بونس بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں لفتھانزا کا ایک پائلٹ اپنی ملازمت کے پہلے سال کے دوران 65 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) کماتا تھا۔ واضح رہے بیس سالہ تجربہ رکھنے والے پائلٹ کی سالانہ آمدن اس سے دوگنی ہوتی ہے۔ کورونا وبا کے بحران کے سبب بہت ساری ایئرلائن کمپنیوں نے پائلٹوں کی تنخواہوں میں بھی کمی کی تھی۔
کورونا میں جہازوں کو پارک کہاں کیا جائے؟
01:11
ایئرلائن پائلٹوں کا 'پلان بی‘
جرمن پائلٹوں کی یونین 'کاک پٹ‘ کے ترجمان یانسی شمٹ کے مطابق جرمنی میں ایسے چند ہی واقعات دیکھے گئے ہیں، جن میں پائلٹوں نے ریلوے کمپنی کا رخ کیا ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بحران کے دوران ہمارا عام طور پر سب کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ اپنے 'پلان بی‘ پر غور کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران بعض پائلٹوں کے لیے پلان بی کا مطلب، ریل گاڑی، ٹرام یا پھر بس چلانا ہی رہ گیا ہے۔
ع آ / ا ا (آندریاس اشپیتھ)
الیکٹرک ہوائی جہاز پر سفر کب ممکن ہو گا؟
دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ لیکن الیکٹرک ہوائی جہازوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی الیکٹرک طیاروں میں طویل نہیں تو کم ازکم مختصر سفر کرنے کے قابل ضرور ہو جائیں گے۔
تصویر: Siemens AG
چھوٹے مگر آلودگی سے پاک جہاز
متبادل توانائی سے اڑنے والے طیارے ماحول کے لیے نقصان دہ CO2 یا دیگر ضرر رساں گیسیں خارج نہیں کرتے۔ یہ نہ تو نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج کا سبب ہیں اور نہ ہی دیگر ماحول دشمن خطرناک ذرات کے۔ یہ طیارے قدرے چھوٹے، کم وزن اور زیادہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ ’الفا الیکٹرو‘ سلووینیہ کے سٹارٹ اپ ’پیپسٹرل‘ کا ای جہاز ہے، جو مذکورہ بالا باتوں کی صداقت کرتا ہے۔ اس جہاز نے پہلی مرتبہ سن 2015 میں پہلی پرواز بھری تھی۔
تصویر: Pipistrel
نو سیٹوں والا مسافر بردار ای جہاز
زیادہ تر کمپنیاں اور سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی سطح پر سفر کے لیے ایسے ای جہازوں کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اسرائیلی اسٹارٹ اپ ’ایوی ایشن‘ کا منصوبہ ہے کہ نو سیٹوں والے ایک ای جہاز کو بطور مسافر طیارہ استعمال کیا جائے۔ تصویر میں نظر آنے والا پروٹو ٹائپ ای جہاز ’ایلیس‘ مکمل چارچ کرنے کے بعد ساڑھے چھ سو میل کا فاصلہ طے کر سکے گا۔ منصوبہ ہے کہ یہ جہاز سن دو ہزار انیس میں پہلی پرواز بھر لے۔
تصویر: Eviation
اڑنے والی ٹیکسی
جرمن کمپنی لیلیم کی ’فلائینگ ٹیکسی‘ نے پہلی مرتبہ2017 میں ٹیسٹ پرواز کی تھی۔ پانچ سیٹوں والا یہ ای جہاز عمودی لینڈنگ اور ٹیک آف کرنے کے قابل ہے۔ یہ جہاز ایک سو نوے میل کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جہاز نے پیرس سے لندن تک کا سفر ایک گھنٹے میں مکمل کیا۔ مقصد ہے کہ ایک دن لوگ موبائل ایپ سے اس جہاز کو بلوا سکیں اور عام ٹیکسی کے کرائے کے برابر رقوم ادا کر کے اس اڑنے والی ٹیکسی میں سفر کر سکیں۔
تصویر: Lilium
پرانے اور نئے کا امتزاج
کچھ طیارہ ساز کمپنیاں یہ ہمت نہیں کر سکتی ہیں کہ وہ صرف الیکٹرک جہاز ہی بنانا شروع کر دیں۔ نومبر سن دو ہزار سترہ میں ایئر بس، رولس رائس اور سیمینز نے اعلان کیا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر ایک کمرشل ہائبرڈ الیکٹرک پروٹو ٹائپ تیار کریں گے۔ e-Fan X نامی یہ ای جہاز گیس کے تین ٹربائین اور ایک الیکٹرک موٹر کا حامل ہو گا۔ توقع ہے کہ سن دو ہزار بیس تک یہ جہاز اپنی پہلی پرواز بھرنے کے قابل ہو جائے گا۔
تصویر: Airbus
ڈیڑھ سو سیٹوں والا ای جہاز
برطانوی بجٹ ایئر لائن ’ایزی جیٹ‘ کمپنی کو زیادہ ماحول دوست بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس برطانوی ایئر لائن نے اسی مقصد کی خاطر امریکی اسٹارٹ اپ ’رائٹ الیکٹرک‘ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک مکمل ای جہاز بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس الیکٹرک جہاز میں 150 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔ تاہم یہ ابھی معلوم نہیں کہ اس جہاز کا پہلا پروٹو ٹائپ کب منظر عام پر آ سکے گا۔
تصویر: Wright Electric
الیکٹرک فیوچر
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ بیس برسوں بعد الیکٹرانک جہازوں میں سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ متعدد پروٹو ٹائپس کمپنیاں کوشش میں ہیں کہ یہ جہاز مکمل چارج کیے جانے کے بعد ایک ہی مرتبہ ایک سو پچپن تا چھ سو پچاس میل تک کا سفر کر سکیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی بہت تیزی سے ہو رہی ہے اور کسے معلوم کہ ہم ضرر ساں گیسوں سے پاک متبادل توانائی سے چلنے والے ای جہازوں میں جلد ہی سفر کرنے کے قابل ہو جائیں۔