1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن پارلیمانی انتخابات، اپوزیشن رہنما شٹائن بروک مشکل میں

عاطف بلوچ15 اگست 2013

پیئر شٹائن بروک اپنی انتخابی مہم کے دوران لفتھانزا کے ایک خالی بوئنگ طیارے کے کاک پٹ میں جاتے ہوئے راستہ بھولنے پر سراسیمہ سے ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ ’پائلٹ‘ کی جگہ سنبھالیں تو فوٹو گرافر ان کی تصاویر بنائیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی کی اپوزیشن سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رہنما پیئر شٹائن بروک ستمبر میں منعقد ہونے والے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کے مقابلے پر چانسلر شِپ کے امیدوار ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہیمبرگ میں اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران وہ لفتھانزا بوئنگ 747 کے کاک پٹ میں جانا چاہتے تھے لیکن وہ کاک پٹ کے زیریں حصے میں ہی راستہ بھول گئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ گویا سابق وزیر خزانہ شٹائن بروک ابھی تک ’عوام کو اس بات کا قائل نہیں کر سکے ہیں کہ وہ انگیلا میرکل سے بہتر پائلٹ ہیں‘۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما پیئر شٹائن بروکتصویر: picture-alliance/dpa

عوامی جائزوں کے مطابق جرمن عوام کا جھکاؤ حکمران سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی طرف زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں شٹائن بروک اپنی بھرپور کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنی انتخابی مہم کو کامیاب بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جرمن ووٹروں کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔

جرمنی میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد بائیس ستمبر کو ہو گا۔ ان انتخابات سے چھ ہفتے قبل ہی سی ڈی یو میں اندرونی سطح پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اب اس پارٹی کے متعدد ممبران یہ نہیں سوچ رہے کہ آیا شٹائن بروک قدامت پسند خاتون سیاستدان میرکل سے جیت سکتے ہیں بلکہ زیادہ غور اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ ناکامی کی صورت میں کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے۔

بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اعتدال پسند سیاسی پارٹی ایس پی ڈی میں یہ بازگشت بھی نمایاں ہے کہ شکست کی صورت میں انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کے ساتھ کسی وسیع تر اتحادی حکومت کا حصہ نہ بنا جائے۔

یہ امر اہم ہے کہ 2005ء میں ایس پی ڈی، سی ڈی یو کی اتحادی حکومت کا حصہ بنی تھی۔ اس وقت ایس پی ڈی نے 34 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے تاہم 2009ء کے انتخابات میں اس پارٹی کو صرف 23 فیصد ووٹ ملے تھے، جو اس پارٹی کی دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بدترین کارکردگی قرار دی جاتی ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ایس پی ڈی کے ووٹرز نے اسے صرف اس لیے ووٹ نہ دیے کیونکہ وہ 2005ء میں اتحادی حکومت کا حصہ بن گئی تھی۔

ناکامی کی صورت میں ایس پی ڈی کی ممکنہ حکمت عملی

ایس پی ڈی کے کئی اعلیٰ رہنماؤں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ اگر ستمبر کے انتخابات میں وہ اور اس کی روایتی اتحادی سیاسی جماعت گرین پارٹی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa

شٹائن بروک ناکامی کی صورت میں سی ڈی یو کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ بننے سے قطعی انکار کر چکے ہیں۔ اس اپوزیشن جماعت کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر بھی ایسے کسی اتحاد کے بارے میں شک و شبے کا شکار ہیں۔

اس صورتحال میں کولون یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی تجزیہ نگارThomas Jaeger کہتے ہیں، ’’2005ء کے مقابلے میں اس مرتبہ صورتحال کافی مختلف ہو گی۔‘‘ انہوں ںے مزید کہا، ’’میں یہ تصورکر سکتا ہوں کہ ایس پی ڈی میں بہت سے رہنما ایسے ہیں، جو انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کی قیادت میں جونیئر پارٹنر بننے کے لیے دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ ان کے سامنے ہی ہے کہ گزشتہ مرتبہ ایسا کرنے سے ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز نے تازہ سروے رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایس پی ڈی، حکمران سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تقریباً پندرہ پوائنٹس پیچھے ہے۔ ان عوامی جائزوں کے نتائج کے مطابق شٹائن بروک کے لیے پریشانی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ایس پی ڈی کے ووٹروں میں سے تقریباً ایک چوتھائی کا خیال ہے کہ میرکل اور ان کی حکومت جرمنی کے موجودہ مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

شٹائن بروک نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران جرمن چانسلر پر تنقید کرتے ہوئے میرکل کو ایک ایسے پائلٹ سے تعبیر کیا تھا، جنہوں نے طوفان کے بیچ مسافروں کو سکیورٹی کی جھوٹی تسلی دلا کر سلا دیا ہے۔ شٹائن بروک کے بقول، ’’مسئلہ یہ ہے کہ وہ (میرکل) یہ نہیں جانتیں کہ وہ کہاں لینڈ کرنے جا رہی ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں