جرمن پارلیمانی انتخابات کا سیاہ فام امیدوار
31 جولائی 2013خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دیابی مشرقی جرمن شہر Halle کی مقامی سیاست میں گزشتہ دو عشروں سے زائد عرصے سے سرگرم عمل ہیں اور اب اُسی علاقے میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اے پی کے جائزے کے مطابق دیابی اپنے حلقے کے عوام میں بے حد مقبول ہیں، لوگ اُنہیں جگہ جگہ روک کر اُن کے ساتھ اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں اور وہ بھی روانی سے جرمن بولتے ہوئے اُن کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔
22 ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں وفاقی جرمن پارلیمان کی تقریباً 600 نشستوں کے لیے مقابلہ کرنے والے امیدواروں میں سے اس بار 81 امیدوار ایسے ہیں، جو خود تارکین وطن ہیں یا ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو گزشتہ عشروں کے دوران دیگر ممالک سے آ کر جرمنی میں آباد ہوئے ہیں۔
اگرچہ ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے امیدواروں کی یہ اب تک جرمنی میں سب سے بڑی تعداد ہے تاہم برطانیہ یا پھر فرانس کے مقابلے میں یہ تعداد ابھی بھی کم ہے۔ ایسے زیادہ تر امیدواروں کا تعلق گرین پارٹی یا پھر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے ہے جبکہ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یُو کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے ایسے امیدواروں کی تعداد صرف چھ ہے۔
کارامبا دیابی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امیدوار ہیں اور اُن کی کامیابی کے امکانات کافی روشن ہیں۔ انہوں نے ذرا معذرت خواہانہ انداز میں بتایا کہ وہ خود امیدوار نہیں بنے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں نے اُنہیں آگے آنے کے لیے کہا ہے۔
دیابی کو امیدوار بنانے کا فیصلہ اس وجہ سے بھی قابل ذکر ہے کہ مشرقی جرمن صوبہ سیکسنی انہالٹ تارکین وطن اور خصوصاً غیر یورپی تارکین وطن کی جانب معاندانہ جذبات رکھنے کے لیے خاصا بدنام ہے۔
دو بچوں کے باپ دیابی پیشے کے اعتبار سے کیمسٹ ہیں، وہ 1986ء میں ہالے منتقل ہوئے تھے جبکہ جرمن شہریت اُنہوں نے 2001ء میں حاصل کی۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اُنہیں ایک بار اُن کے رنگ کی بناء پر جسمانی حملے کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
اپنی کم شرحِ پیدائش کی وجہ سے جرمنی کو تارکین وطن کی ضرورت ہے، یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر سیاستدان اپنی انتخابی مہم کے دوران اس مسئلے کو کم ہی موضوع بنا رہے ہیں۔
دیابی کا بنیادی موضوع تعلیم ہے اور اُن کے خیال میں تعلیم ہی معاشرے کے تمام طبقوں کے حالات کو بہتر بنا سکتی ہے۔
جرمنی میں افریقی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد دوسری عالمی جنگ کے بعد آئی، جب نو آزاد افریقی ممالک نے اپنے بہترین اور قابل ترین شہریوں کو بیرون ملک بھیجنا شروع کیا۔ دیابی بھی اُنہی میں سے ایک تھے، جو اُس دور میں مشرقی جرمنی میں وظیفے پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہنچے تھے، جب وہاں کمیونسٹ دور اپنے خاتمے کے قریب تھا۔
2005ء تک افریقی پس منظر کے حامل کوئی دو لاکھ افراد جرمن شہریت حاصل کر چکے تھے جبکہ تین لاکھ تین ہزار ایسے تھے، جن کے پاس یہاں رہائش رکھنے کے اجازت نامے تھے۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سیاہ فام جرمن شہری کھیل، شوبز یا پھر میڈیا میں تو اکثر نظر آنے لگے ہیں لیکن ابھی تک یہاں کی سیاسی زندگی میں کسی نے قدم نہیں رکھا تھا۔