جرمن پارلیمان کا ڈیٹا روسی انٹیلیجنس کے حوالے، فرد جرم عائد
25 فروری 2021
جرمنی میں ایک ایسے شہری پر جاسوسی کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، جس نے جرمن پارلیمان سے متعلق اہم تفصیلات روسی خفیہ اداروں کے حوالے کی تھیں۔ ملزم نے روسی انٹیلیجنس کو یہ معلومات تین سال پہلے دینا شروع کی تھیں۔
اشتہار
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کی طرف سے جمعرات پچیس فروری کو برلن میں بتایا گیا کہ اس مشتبہ ملزم کا نام ژینس ایف ہے اور وہ ایک ایسی کمپنی کے لیے کام کرتا تھا، جسے وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کی عمارت میں الیکٹرانک تنصیبات کی معمول کی نگرانی اور دیکھ بھال کا کام سونپا گیا تھا۔
روسی ملٹری انٹیلیجنس کو معلومات کی فراہمی
جرمنی کے پرسنل پرائیویسی لاء کے تحت حکام نے اس ملزم کی شناخت پوری طرح ظاہر نا کرنے کی نیت سے میڈیا کو اس کا پورا نام نہیں بتایا۔ فیڈرل پراسیکیوشن آفس کے مطابق اس مشتبہ ملزم کو برلن میں بنڈس ٹاگ کی عمارت کی سبھی منزلوں کے نقشوں اور اہم تنصیبات تک رسائی حاصل تھی۔
وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق، ''اس ملزم نے بنڈس ٹاگ کی عمارت اور وہاں الیکٹرانک تنصیبات سے متعلق پی ڈی ایف فائلوں کی صورت میں محفوظ کیا گیا اہم ڈیٹا برلن میں روسی سفارت خانے کے ایک ایسے اہلکار کو بھیجا تھا، جو بنیادی طور پر روسی فوج کے خفیہ ادارے جی آر یو (GRU) کے لیے کام کرتا تھا۔‘‘
جرمن خفیہ ادارے ماضی میں روسی ہیکروں کی طرف سے کیے جانے والے سائبر حملوں اور جاسوسی کی کوششوں کے خلاف بار بار برلن حکومت کو تنبیہ کرتے رہے ہیں۔
اسی تناظر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ برس مئی میں بنڈس ٹاگ کو بتایا تھا کہ ان کے پاس اس امر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ روس کی طرف سے خود ان کی جاسوسی کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
اس سے قبل 2015ء میں جرمن پارلیمان پر ایک ایسا سائبر حملہ بھی کیا گیا تھا، جس کے لیے ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں دیمیتری بادین نامی ایک روسی ہیکر کو ذمے دار قرار دیا تھا۔ یہ روسی ہیکر کئی سائبر حملوں سے متعلق اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کو بھی مطلوب ہے۔
اشتہار
جرمن روسی کشیدگی کی وجوہات
اس پیش رفت اور جاسوسی کے مرتکب جرمن شہری پر باقاعدہ فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد خدشہ ہے کہ برلن اور ماسکو کے مابین کئی مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی اور زیادہ ہو جائے گی۔
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
12 تصاویر1 | 12
جرمنی اور روس کے باہمی تعلقات حالیہ مہینوں میں اس وجہ سے بھی شدید کشیدہ ہو گئے تھے کہ روس میں صدر پوٹن کے ناقد اور اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کو پہلے زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ناوالنی علاج کے لیے چند ماہ جرمنی میں مقیم رہے تھے اور پھر روس واپسی پر نا صرف انہیں گرفتار کر لیا گیا بلکہ انہیں اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا سامنا بھی ہے۔
جرمنی سمیت مغربی دنیا کے کئی ممالک کے رہنماؤں کے مطابق روس میں الیکسی ناوالنی کے خلاف عدالتی کارروائی ان سے سیاسی انتقام لینے کی ماسکو حکومت کی کوششوں کا حصہ ہے۔
روسی تردید اور جرمن اصرار
روسی حکومت کی طرف سے ان الزامات کی بھرپور تردید کی جاتی ہے کہ اس کے ایما پر جرمنی میں کوئی سائبر حملے کیے گئے یا اس کا ملکی اپوزیشن کے سیاستدان ناوالنی کو سوویت دور میں تیار کیا گیا اعصابی زہر نوویچوک دے کر ہلاک کرنے کی کوشش سے کوئی تعلق ہے۔
گزشتہ صدی کے دوران خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو زہر دینے کے متعدد واقعات دیکھے گئے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ روسی صدر پوٹن کے ناقد الیکسی ناوالنی کا ہے۔
تصویر: Imago Images/Itar-Tass/S. Fadeichev
الیکسی ناوالنی
روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کو ماسکو جانے والی پرواز میں اچانک علیل ہونے پر فوری لینڈنگ کے بعد ہسپتال پہنچایا گیا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔ روسی صدر پوٹن کے بڑے ناقد چوالیس سالہ سابقہ وکیل ناوالنی نے سائبیریا کے علاقے اومسک کے ایئر پورٹ پر ایک کپ چائے پی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Kudrayavtsev
پیوٹر ورزیلوف
سن 2018 میں انسانی حقوق کے روسی نژاد کینیڈین کارکن پیوٹر ورزیلوف کو نازک حالت میں ماسکو کے ایک ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔ انہیں مبینہ طور پر زہر اس وقت دیا گیا جب انہوں نے ایک انٹرویو میں روسی عدالتی نظام پر تنقید کی تھی۔ وہ روسی میوزیکل بینڈ ’پُوسی رائٹ‘ کے غیر سرکاری ترجمان تھے۔ انہیں بعد میں برلن کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں زہر دینے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/A. Novoderezhkin
سیرگئی اسکریپل
66 سالہ سابقہ روسی جاسوس سیرگئی اسکریپل کو برطانوی شہر سالسبری کے ایک شاپنگ مال کے باہر بینچ پر بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا تھا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اعصاب معطل کرنے والے ایجنٹ نوویچوک کے ذریعے انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ فوری طبی امداد سے بچ گئے تھے۔ روسی حکومت نے اسکریپل کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور واقعے پر لاعلمی ظاہر کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass
کِم جونگ نام
جنوبی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن کے سوتیلے بھائی کِم جونگ نام کو 13 فروری سن 2008 کے دن چہرے پر اعصاب معطل کرنے والے ایجنٹ وی ایکس کے اسپرے سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ چہرے پر اسپرے کا واقعہ ملائیشیائی دارالحکومت کوالالم پور کے ہوائی اڈے پر ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Kambayashi
الیگزینڈر لِیٹویننکو
روسی خفیہ ادارے FSB کے سابق ایجنٹ الیگزینڈر لِیٹویننکو نے منحرف ہو کر برطانیہ میں پناہ لے لی تھی۔ وہ 23 نومبر سن 2006 کو مختصر بیماری کے بعد ہلاک ہو گئے۔ بیمار ہونے سے قبل انہوں نے سابقہ سوویت یونین کے دو ایجنٹوں سے ملاقات کی تھی۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ انہیں تابکار پولونیم دینے سے مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kaptilkin
وکٹور کلاشنیکوف
نومبر سن 2010 کو برلن کے شاریٹے ہسپتال کے ڈاکٹروں نے روسی منحرف کلاشنیکوف جوڑے کے جسموں میں پارے کی بھاری مقدار کا پتہ چلایا تھا۔ وکٹور کلاشنیکوف ایک فری لانس صحافی بننے سے قبل سابقہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی میں کرنل متعین تھے۔ انہوں نے جرمن جریدے فوکس کو بتایا تھا کہ ماسکو حکومت نے انہیں زہر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/RIA Novosti
وکٹور یوشچینکو
یوکرائنی اپوزیشن لیڈر یوشچینکو ستمبر سن 2004 میں بیمار ہو گئے۔ لیبارٹری ٹیسٹس سے پتہ چلا کہ بیماری کی بنیادی وجہ لبلبے میں زہریلے کیمیائی مواد کی موجودگی ہے۔ اس بیماری سے ان کے چہرے پر سیاہ نشان پیدا ہو گئے تھے۔ یوشچنکو کے مطابق انہیں حکومتی ایجنٹوں نے زہر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Leodolter
خالد مشعل
پچیس ستمبر سن 1997 کو اسرائیلی خفیہ ادارے نے انتہا پسند فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما خالد مشعل کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ مشعل کو قتل کرنے کا حکم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دیا تھا۔ اسرائیلی ایجنٹوں نے حماس کے لیڈر پر زہریلا اسپرے اردنی دارالحکومت عَمان میں کیا۔ مشعل اس حملے میں بچ گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Sazonov
جیورجی مارکوف
سن 1978 میں بلغاریہ کے منحرف جیورجی مارکوف برطانوی نشریاتی ادارے میں کام کرنے کے بعد بس اسٹاپ پر انتظار کر رہے تھے کہ ان کی ران میں اچانک کوئی نوک دار شے گُھس گئی۔ انہیں قریب ہی ایک چھتری پکڑے شخص دکھائی دیا۔ وہ چار دن بعد دم توڑ گئے۔ پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ نوک دار شے کے ذریعے ان کے جسم میں خطرناک زہر ڈالا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/Stringer
گریگوری راسپوٹین
تیس دسمبر سن 1916 کو راہب اور روحانی علاج کے ماہر راسپوٹین سینٹ پیٹرز برگ میں واقع یوسوپوف پیلس پرنس فیلکس کی دعوت پر پہنچے۔ شہزادے نے راسپوٹین کو سنکھیے زہر والا کیک کھانے کو دیا۔ اسی محفل میں انہیں سنکھیے والی شراب بھی دی گئی اور پھر بھی وہ زندہ رہے۔ بعد میں راسپوٹین کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ IMAGNO/Austrian Archives
10 تصاویر1 | 10
اس کے برعکس جرمن حکومت کا اصرار ہے کہ اس کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ ناوالنی کو نوویچوک اعصابی زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
یورپی یونین کی روس کے خلاف پابندیاں
الیکسی ناوالنی سے متعلق معاملات میں ماسکو حکومت کے ملوث ہونے کی وجہ سے یورپی یونین نے اسی ہفتے چار سرکردہ روسی اہلکاروں کے خلاف نئی پابندیاں بھی لگا دی تھیں۔
پابندیوں کے اس اعلان کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے نا صرف برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی تھی بلکہ ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا تھا کہ مغربی دنیا روس کو 'زنجیروں میں جکڑ دینے‘ کی خواہش مند ہے۔
م م / ع ح (اے ایف پی، روئٹرز)
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔