جرمن پارلیمان کی جاسوسی کرنے کی چینی کوششیں، رپورٹ
6 جولائی 2018
ایک رپورٹ کے مطابق چینی جاسوسوں کی طرف سے جرمن اراکین پارلیمان کو رشوت دینے اور ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ چینی جاسوس جرمن قانوں سازوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے دوستی کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے معتبر اخبار ’ذوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق چینی جاسوسوں کی جانب سے جرمن اراکین پارلیمان سے ’تجزیوں‘ کی صورت میں معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اخبار کے مطابق چینی ایجنٹ سوشل میڈیا پر جعلی پروفائلز استعمال کرتے ہیں اور متعدد قانون سازوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
جرمن قانون سازوں سے بھاری رقوم کے بدلے میں ان کی ذاتی اور خفیہ معلومات پر مبنی تجزیے اور جائزے طلب کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد قانون سازوں کو چین بھی مدعو کیا گیا تاکہ معلومات حاصل کرنے کے حوالے سے ان پر دباو ڈالا جا سکے۔ اخبار کے مطابق یہ جاسوس ایک چیز کے بارے میں صرف سچ بتاتے ہیں اور وہ ہے ان کی شہریت۔
شائع کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2016 میں ایک جرمن قانون ساز کو ’جیسن وانگ‘ کی طرف سے تیس سے تینتیس ہزار یورو کی پیش کش کی گئی تاکہ وہ ان کے لیے ایک ’تجزیاتی رپورٹ‘ لکھ سکیں۔ اس قانون ساز کی چین روانگی سے کچھ دیر قبل جرمن خفیہ ایجنسی اور وفاقی دفتر برائے آئینی تحفظ (بی ایف وی) نے انہیں مطلع کیا کہ وہ جس چینی شہری کے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ مشتبہ طور پر ایک خفیہ ایجنٹ ہے۔
اسی طرح جرمن قانون سازوں کے ایک اسٹاف ممبر کو معلومات کے بدلے دس ہزار یورو فراہم کیے گئے تھے اور وہ چین کا سفر بھی کر چکا ہے، جہاں اسے پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس بلیک میل کیا گیا۔ اخبار کے مطابق ان قانون سازوں کو چین میں مدعو کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سے ان کے موبائل فونز یا لیپ ٹائپ کو ہیک کیا جائے تاکہ بعد ازاں انہیں بلیک میل کرنے میں آسانی ہو۔
اندازوں کے مطابق چینی خفیہ ایجنسی کے ایک ملین سے زائد اہلکار ہیں۔ رواں برس اپریل میں وفاقی دفتر برائے آئینی تحفظ نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کمپنیاں جرمنی کے ہائی ٹیکنالوجی اداروں میں سرمایہ کاری رہی ہیں اور اس طرح جرمنی کی اعلیٰ ٹیکنالوجی چین منتقل ہو سکتی ہے۔
چینی وزیراعظم لی کیچیانگ آئندہ پیر کے روز جرمنی کا دورہ کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ جرمن حکومت اس معاملے پر بھی گفتگو کرے گی۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔