جرمن پارلیمنٹ نے ایٹمی بجلی گھر بند کرنے کی منظوری دے دی
1 جولائی 2011اس سلسلے میں ایٹمی توانائی سے متعلقہ جرمن قوانین میں ترمیم کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل یونین جماعتوں اور ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی کے ارکان کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے اراکین نے بھی حمایت کی ہے۔
مجموعی طور پر اس بارے میں ایک قرارداد کی 513 ارکان نے حمایت اور 79 نے مخالفت کی جبکہ آٹھ ارکان پارلیمان نے حق رائے دہی کا اپنا حق محفوظ رکھا۔ جرمن وزیر ماحولیات نوربرٹ روئٹگین کا کہنا تھا: ’’یہ ایک مشترکہ قومی منصوبہ ہے، جس کی آج منظوری دی گئی ہے۔‘‘
جرمنی کی گرین پارٹی جو 1980ء سے جوہری بجلی گھروں کے خلاف سرگرم ہے اور حال ہی میں اسے اسی وجہ سے انتخابات میں کامیابی بھی ملی ہے۔ اس پارٹی کے مطابق انہیں ایک طویل عرصے سے زیر التواء معاملے میں ’تاریخی فتح‘ حاصل ہوئی ہے۔
پارلیمانی گروپ لیڈر Renate Kuenast نے کہا: ’’ اینٹی نیوکلیئر تحریک کے ذریعے آج ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے مجھے اس پر فخر ہے۔ اسی تحریک کی وجہ سے مجھ سے امتیازی سلوک اور میری کوششوں کو مجرمانہ تصور کیا جاتا تھا۔‘‘
جوہر ی توانائی کے حامی ملک فرانس اور یورپی یونین کے کئی دوسرے رکن ملکوں نے جرمنی کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق برلن حکومت کے اس فیصلے سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جاپان میں 11 مارچ کو پیش آنے والے جوہری حادثے کے فوراﹰ بعد جرمنی میں آٹھ پرانے ایٹمی بجلی گھر بند کر دیے گئے تھے جبکہ باقی نو کی مرحلہ وار بندش سن 2022 ء تک عمل میں لائی جائے گی، جو اس وقت کام کر رہے ہیں۔
جرمنی وہ پہلا ترقی یافتہ ملک ہے، جس نے 1986ء کے چرنوبل اور جاپان کے ایٹمی حادثے کے بعد ایٹمی بجلی گھر بند کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
جرمن پارلیمان میں ملک میں ماحول دوست توانائی کی بہتر ترویج سے متعلق ایک اور جامع قانونی پیکج کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ ایٹمی بجلی گھروں کی بندش کے باعث پیدا ہونے والی بجلی کی 22 فیصد کمی کو ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے تحت پورا کیا جائے گا۔ حکومتی منصوبوں کے تحت 2020ء تک 35 فیصد بجلی کی ملکی ضروریات کو توانائی کے متبادل ذرائع سے حاصل کیا جائے گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل