جرمن پولیس نے رواں برس ریکارڈ پینتیس ٹن کوکین ضبط کی
30 دسمبر 2023
جرائم کی تحقیقات کرنے والی وفاقی جرمن پولیس کی ملک میں منشیات سے متعلقہ جرائم کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2017ء کے بعد سے جرمنی میں پکڑی جانے والی کوکین کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن پولیس اور کسٹمز کے تفتیش کاروں نے 2023ء میں مجموعی طور پر کوکین کی 35 ٹن ریکارڈ مقدار ضبط کی۔ یہ اعداد و شمار جرائم سے نمٹنے کی ذمے دار ملکی پولیس کے فیڈرل کریمینل آفس (بی کے اے) کے ملک میں پکڑی جانے والی غیر قانونی منشیات کے عبوری سالانہ تخمینوں میں شامل ہیں۔
بی کے اے کے ترجمان نے کہا کہ 2022 ء میں ضبط کی گئی کوکین کی مقدار تقریباً 20 ٹن تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کوکین کی ریکارڈ مقدار 2021 میں ضبط کی گئی تھی، جو 23 ٹن بنتی تھی۔ این ڈی آر نامی شمالی جرمن نشریاتی ادارے نے رواں ماہ کے شروع میں اطلاع دی تھی کہ 2023 میں جرمن حکام کی طرف سے قبضے میں لی گئی کوکین کی مجموعی مقدار 40 ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔
فیڈرل کریمینل آفس کی اس غیر حتمی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ''2017ء کے بعد سے جرمنی میں پکڑی جانے والی کوکین کی سالانہ مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
2018 میں حکام نے صرف پانچ ٹن کوکین برآمد کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ سالانہ مقدار بڑھ کر تقریباﹰ سات گنا ہو چکی ہے۔ جرمنی میں زیادہ تر کوکین جنوبی امریکی ممالک سےکنٹینروں کے ذریعے اور بنیادی طور پر شمالی شہروں ہیمبرگ اور بریمن کی بندرگاہوں کے راستے آتی ہے۔ ہیمبرگ کے کسٹمز انویسٹی گیشن آفس کے ترجمان کے مطابق اس سال دسمبر تک جرمنی کی مختلف بندرگاہوں سے 30 ٹن سے زیادہ منشیات پکڑی جا چکی تھیں۔
بیلجیم میں منشیات کے سمگلروں کے خلاف تاریخی ٹرائل
بیلجیم نےحال ہی میں ملکی تاریخ میں منشیات کی سمگلنگ کے خلاف سب سے بڑے مقدمات میں سے ایک کا آغاز کیا، جس میں 120 سے زیادہ ملزمان کو کٹہرے میں لایا گیا۔ یہ ملزمان یورپ کے بڑے حصے میں تفتیش کاروں کی ان کوششوں کے بعد پکڑے گئے تھے، جن میں حکام نے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی میسیجنگ ایپس کے خفیہ کوڈزکریک کیے تھے۔
بیلجیم، البانیہ، کولمبیا اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان مشتبہ ملزمان کو ایک وسیع تر مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے کے الزام میں برسلز میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے سابقہ ہیڈ کوارٹرز میں سخت سکیورٹی والے ایک کمرہ عدالت میں قانون کے سامنے جواب دہ بنایا گیا۔
اس گروہ کے 50 سالہ سرغنہ ایریڈن مونوز گوریرو نے دوران سماعت اعتراف کیا کہ انہوں نے جرمنی، اٹلی اور سویڈن جانے والے گینگ کوریئرز کے ذریعے چلائی جانے والی لگژری کاروں میں کوکین کے لیے خفیہ کمپارٹمنٹ بنوائے تھے۔ اس مبینہ ملٹی نیشنل ڈرگ سمگلنگ نیٹ ورک میں متعدد جرائم پیشہ گروہ شامل تھے اور یہ 2017 سے 2022 کے آخر تک سرگرم رہے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے بیلجیم، جرمنی اور اٹلی میں چھاپوں کے بعد اس گروہ کی کارروائیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔
ش ر ⁄ م م ( ڈی پی اے، اے ایف پی)
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔