1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن پولیس کے دائیں بازو کی تنظیم 'پریپر سین' پر چھاپے

23 فروری 2023

پولیس حکام کے مطابق مشتبہ افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے گروپ 'رائش برگر' تحریک سے بھی ہے۔ حکام کا کہنا ہے معاملے کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

Razzia gegen Reichsbürger / Bad Lobenstein, Thüringen 7.12.22
تصویر: Fricke/NEWS5/AFP

جرمنی میں پولیس نے 22 فروری بدھ کے روز انتہائی دائیں بازو کے گروپ 'پریپر سین' سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کے چھ اپارٹمنٹس اور ان کے تین دیگر مقامات پر چھاپے مارے۔

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال

 پولیس کے مطابق ایسے اشارے ملے تھے کہ بڑے پیمانے پر بجلی کاٹنے کے ساتھ ہی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا منصوبہ تھا، اور اسی کی مزید تفتیش کے سلسلے میں چھاپے کی کارروائی کی گئی۔

جرمن عدلیہ اور انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں میں تعلق

 تازہ چھاپوں کی کارروائی میں مجموعی طور پر 70 سے زائد پولیس اہلکار شامل تھے۔

جرمن فوجی انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا

پریپر سین اور انتہائی دائیں بازو کے درمیان روابط

یہ چھاپے جرمنی کے 'پریپر سین' میں ملوث چھ مشتبہ افراد کے بارے میں تحقیقات کا حصہ تھے۔ ان میں سے کچھ ارکان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق نام نہاد دائیں بازو کی تنظیم ''رائش برگر'' کی تحریک سے ہے، جو جرمن حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنی میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ 'پریپر سین' کے رکن ہیں، جن میں سے بہت سے ممبران کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی تنظیم سے ہے۔

ملزمان پر سیاسی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام

میونخ میں پراسیکیوٹر کے دفتر کا کہنا ہے کہ ''ستمبر 2020 سے ہی مدعا علیہان پر اس بات کا شبہ ہے کہ انہوں نے پاور اسٹیشنوں میں سبوتاژ کر کے جرمنی میں بڑے پیمانے پر بجلی بند کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس کا مقصد جرمنی میں سیاسی بغاوت کے ذریعے دوسرے گروہوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے قابل بنانا تھا۔''

اب ملزمان پر دہشت گرد تنظیم تشکیل دینے اور اس میں شامل ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)

جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے کون؟

03:09

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں