جرمن چانسلرمیرکل کی ’مایوس کن‘ جیت
1 جولائی 2010تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تیسری مرتبہ ہوا ہےکہ صدارتی الیکشن کے سلسلے میں ووٹنگ تیسرے مرحلے تک پہنچی۔
بدھ کے دن جرمنی میں خصوصی وفاقی اسمبلی ( Bundesversammlung) کے اجلاس میں اگرچہ چانسلر میرکل کے نامزد صدارتی امیدوار کرسٹیان وولف نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اپنے مرکزی حریف یوآخم گاؤک کو شکست دے دی تاہم ووٹنگ کے تیسرے مرحلے میں جانے کو ناقدین نے انگیلا میرکل کے سیاسی اتحاد کے لئے ایک ’سیاسی طمانچہ‘ قرار دیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ جس طریقے سے وولف صدر منتخب کئے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران سیاسی اتحاد کے اندر اختلافات موجود ہیں اورانہی اختلافات نے وولف کو پہلے دو مرحلوں میں صدر منتخب ہونے سے محروم رکھا۔
جرمنی میں صدر منتخب ہونے لئے کسی بھی امیدوار کو کل 623 ممبران کی حمایت درکار ہوتی ہے جبکہ اس الیکشن سے قبل سیاسی اتحاد نے کہا تھا کہ ان کے پاس 644 ممبران کی حمایت ہے۔ اس الیکشن سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران سیاسی اتحاد کے اندر باغی عناصر موجود ہیں،جو میرکل کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
اس الیکشن میں وولف نے تیسرے مرحلے میں آخر کار 625 ووٹ حاصل کر ہی لئے جبکہ ان کے حریف گاؤک کو 494 ووٹ ملے۔ بعد ازﺍں میرکل نے کہا:’’ دن کےاختتام پر ہم نے اطمینان بخش نتیجہ حاصل کرلیا ہے۔ ‘‘
جرمنی میں صدر کا کردار اگرچہ رسمی ہوتا ہے اور ملکی سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن جس طرح نو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد حکمران اتحاد کے کرسٹیان وولف کو صدر منتخب کیا گیا ہے، ناقدین کے مطابق وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔
جرمنی کے کئی اخبارات نے وولف کے صدر منتخب ہونے کے طریقہ کار کو جرمن چانسلر کی سیاسی شکست قرار دیا ہے۔ جرمن جریدے ’ڈئیرشپیگل‘ نے اسے انگیلا میرکل کی ایک ’بڑی شکست‘ قرار دیا تو معروف ہفت روزے ’ڈی زائٹ ‘ نے اسے ’ہزیمت آمیز‘ لکھا ہے۔ برلن کی فری یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات اوسکارنائیڈرمئیر کے خیال میں صدارتی الیکشن کےدوران حکمران سیاسی اتحاد ’اتحاد‘ دکھانے میں ناکام ہو گیا ہے۔
جرمنی کے معروف ماہر سیاسیات ایورہارڈ ہولٹمان نے صدارتی انتخابات پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا : میرے خیال میں فی الحال حکمران سیاسی اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کے مستقبل پرایک سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ یہ ہوسکتا ہےکہ یہ سیاسی اتحاد اپنی مقررہ مدت پوری نہ کر سکے۔‘‘ اسی طرح ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار نیلز ڈیڈریش نے اس صدارتی انتخاب کو میرکل کے لئے نفیساتی شکست کہا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین