1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمن چانسلرکا چاقو حملے سے متاثرہ زولنگن شہر کا دورہ

26 اگست 2024

چانسلر شولس نے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ملک میں چاقو رکھنے سے متعلق قوانین میں سختی لائی جائے گی۔ جمعے کو اس شہر میں ہوئے ایک چاقو حملے میں تین افراد ہلاک جب کہ آٹھ دیگر زخمی ہو گئے تھے۔

جرمن چانسلر زولنگن شہر کے دورے پر
جرمن چانسلر اولاف شولس پیر کو جائے واقعہ کے دورے پر پہنچےتصویر: Thomas Banneyer/dpa/picture alliance

جرمن چانسلر اولاف شولس آج پیر کی صبح زولنگن پہنچے تو شہر کے میئر ٹم کرزباخ نے ان کا استقبال کیا۔ شولس  کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ملک میں چاقو لے کر چلنے سے متعلق قوانین میں سختی لائی جائے گی۔ شولس نے  شہر کے مرکز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان سوالات کا ہر حال میں جواب ملنا چاہیے کہ 26 سالہ شامی مشتبہ حملہ آور کو جرمنی بدر کیوں نہیں کیا گیا تھا؟

یہ مشتبہ حملہ آور ہفتے کے روز سے پولیس کی حراست میں ہے اور اس پر اقدام قتل اور 'اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے غیر ملکی دہشت گرد گروپ کی رکنیت سمیت کئی سنگین الزامات عائد ہیں۔

زولنگن شہر میں اولاف شولس نے متاثرہ افراد کی یادگار پر پھول نچھاور کیےتصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images

شولس ہتھیاروں سے متعلق نئے ضوابط کے خواہاں

شولس زولنگن میں سب سے پہلے مارکیٹ اسکوائر پہنچے، جہاں چاقو حملے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ انہوں نے متاثرہ افراد کی یادگار پر سفید گلاب نچھاور کیے۔ اس حملے میں چھپن برس کی ایک خاتون سڑسٹھ اور چھپن برس کے دو مرد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ دیگر آٹھ افراد زخمی ہو گئے تھے، جن میں سے چار کی حالت تشویش ناک ہے۔

اس حملے کا صدمہ پورے جرمنی میں محسوس کیا گیا ہے اور اس کے بعد سے امیگریشن سے متعلق ایک شدید بحث چھڑ گئی ہے جب کہ اگلے ہفتے یہاں علاقائی انتخابات کا انعقاد بھی ہو رہا ہے۔ زولنگن میں صحافیوں سے بات چیت میں شولس نے کہا، ''یہ دہشت گردی تھی۔ ہم سب کے خلاف دہشت گردی۔‘‘ یہ بات اہم ہے کہ دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

شولس نے کہا، ''ہمیں اب اپنے ہاں ہتھیاروں سے متعلق ضوابط کو سخت تر کرنا ہو گا، خصوصاﹰ چاقو کے استعمال سے متعلق ضوابط کو۔‘‘

جرمنی میں تازہ بحث جاری ہے کہ اس وقت عوامی مقامات پر کسی شخص کے پاس موجود چاقو کی انتہائی لمبائی بارہ سینٹی میٹر تک مختص ہے، تاہم اسے کم کر کے اسے چھ سینٹی میٹر کی حد متعین کر دی جائے۔

مشتبہ حملہ آور جرمنی بدر کیوں نہیں ہوا؟

مشتبہ حملہ آور کو حکام نے گزشتہ برس بلغاریہ ڈی پورٹ کرنا تھا مگر اس میں کامیابی نہ ہو سکی کیوں کہ جب بھی اسے ڈی پورٹکرنے کے لیے حکام پہنچے، یہ اپنی رہائش گاہ پر نہ ملا۔ شولس کا اسی تناظر میں کہا تھا، ''ہمیں ہر حال میں یقینی بنانا ہے کہ ایسے تمام افراد جو جرمنی میں نہیں رک سکتے یا جنہیں جرمنی میں قیام کی اجازت نہیں، انہیں ہر حال میں ڈی پورٹ کیا جائے۔‘‘

جرمنی، جرم کرنے والے افغان باشندوں کو ملک بدر کیوں نہیں کر رہا؟

01:27

This browser does not support the video element.

جمعے کے روز زولنگن شہر اپنے قیام کی 650ویں سالگرہ منا رہا تھا اور اس سلسلے میں شہر کے مارکیٹ اسکوائر میں 'تنوع کا جشن‘ جاری تھا، جب چاقو سے مسلح حملہ آور نے وہاں موجود لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔

حملے پر جرمنی میں ردعمل

اس حملے کے بعد جرمنی کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو نے مہاجرت سے متعلق اپنے بیانیے کو مزید سخت بنا دیا ہے۔ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی اس جماعت کے سربراہ فریڈریش میرس نے مطالبہ کیا کہ افغانستان اور شام سے مہاجرین کے جرمنی میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ تاہم چانسلر شولس کی بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت ایس پی ڈی کے سیکرٹری جنرل کیون کیونرٹ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ''اس حملے کا جواب یہ نہیں کہ ہم اسلامی شدت پسندی سے فرار ہو کر آنے والوں کے لیے دروازے بند کر دیں کیوں کہ یہ لوگ اپنی طرز زندگی کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ‘‘کسی شخص کو جرمنی بدر کرنے کی ذمہ داری متعلقہ ریاستوں پر عائد ہوتی ہے، جب کہ اس معاملے میں یہ ذمہ داری نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی تھی۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ اس صوبے میں قدامت پسند جماعت سی ڈی یو نے گرین پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کر رکھی ہے۔

ع ت، ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں