جرمن چانسلر انگلیلا میرکل باویریا میں اپنی اتحادی اور ہم خیال سیاسی پارٹی کرسچن سوشل یونین کی قیادت سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ اس ملاقات کو میرکل کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اتوار کی شام میونخ میں اپنے قدامت پسند اتحاد میں شامل کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی قیادت سے ملاقات میں مہاجرین کے حوالے سے اُس یورپی ڈیل پر بحث کر رہی ہیں، جو حال ہی میں یورپی یونین کی سطح پر منظور کی گئی ہے۔ اگر اس دوران میرکل اس ڈیل کے حوالے سے سی ایس یو کے تحفظات کو دور نہ کر سکیں تو ان کی سیاسی مشکلات دوچند ہو جائیں گی۔
جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسند سی ایس یو کے رہنما اور وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر ایک جامع یورپی ڈیل طے نہ ہوئی تو وہ ایسے مہاجرین کو جرمنی داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں یا جنہوں نے دیگر یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے وزیر داخلہ کے انتباہ کو مسترد کر دیا ہے۔ یوں ناقدین کے مطابق اگر زیہوفر نے ایسے مہاجرین کو ملکی سرحدوں سے واپس کرنا شروع کیا تو انہی اختلافات کی وجہ سے جرمن حکومت ختم ہو جائے گی۔ تاہم اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Dietze
13 تصاویر1 | 13
انگیلا میرکل نے اتوار کی صبح کہا کہ وہ اپنی ہم خیال پارٹی سی ایس یو کے ساتھ مستقبل میں بھی کام کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ میرکل کے مطابق یورپی یونین کے سولہ ممالک طرف سے جرمنی میں موجود مہاجرین کو واپس لینے کی رضا مندی اور جرمنی آنے والے مہاجرین کو ملکی سرحدوں پر قائم بڑے استقبالیہ سینٹرز میں ٹھہرانے اور وہیں پر ان کی پناہ کی درخواستوں کو نمٹانے کے فیصلے ایسے ہیں، جو سی ایس یو کے مطالبات کو پورا کرتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے سی ایس یو کی قیادت کے ساتھ اتفاق رائے ہو جائے گا۔
تاہم دوسری طرف میڈیا نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سی ایس یو کے رہنما ہورسٹ زیہوفر میرکل کی مہاجر پالیسی سے ابھی تک متفق نہیں ہوئے ہیں۔ زیہوفر نے کہا ہے کہ وہ میرکل اور یورپی یونین کی طرف سے منظور کردہ حالیہ ڈیل سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ یہ ان کے تحفظات دور نہیں کرتی۔ ان کا یہ بیان میرکل کے مذکورہ بیانات سے براہ راست متصادم ہے۔
ادھر جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل تیسری سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر اپنا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کر دیا ہے۔
اتوار کے دن اس پارٹی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سی ایس یو اور سی ڈی یو اس بحران سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی ترتیب دیں، ان میں ان نکات کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ نکات درج ذیل ہیں:۔
مہاجرت کی وجوہات کو ختم کرنے کی خاطر زیادہ اقدامات کیے جائیں
ملکی سرحدوں سے مہاجرین کو واپس لوٹانے کا یک طرفہ فیصلہ نہ کیا جائے
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک اٹلی اور یونان کی زیادہ مدد کی جائے
یورپی یونین رکن ممالک کی بیرونی سرحدوں کی نگرانی بڑھائی جائے
جرمنی میں امیگریشن اور ملکی جاب مارکیٹ میں ان کو کھپانے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے
ایس پی ڈی کی طرف سے پیش کیے جانے والے ان نکات میں سے دوسرا انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کی باویریا میں ہم خیال سی ایس یو چاہتی ہے کہ مہاجرین کو سرحدوں سے واپس لوٹانے کا یک طرفہ فیصلہ کیا جائے۔ اس معاملے پر ایس پی ڈی میرکل کی ہم خیال ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ یورپی یونین کی سطح پر کیا جانا چاہیے۔
جرمن روزنامہ ڈیئر اشپیگل نے ایس پی ڈی کے حوالے سے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپی سطح پر ایک متقفہ حکمت عملی ناگزیر ہے اور اس بلاک میں شامل کوئی بھی رکن ملک اپنے طور پر کوئی بھی یک طرفہ اقدام نہ کرے۔ میرکل کی طرح ایس پی ڈی کا بھی کہنا ہے کہ اس بحران سے متاثر ہونے والے ممالک کو ہر ممکن مدد فراہم کی جانا چاہیے اور کسی ملک کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔