جرمن چانسلر اور امریکی صدر کے درمیان اہم امور پر بات چیت
16 جولائی 2021
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ مجموعی شراکت داری اچھی رہی تاہم افسوس اس بات پر ہے کہ ''ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح سے ملک کی تعمیر نو نہیں کر سکے۔''
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے امریکی دورے کے دوران 15 جولائی جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں کئی اہم مختلف فیہ امور پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
محترمہ میرکل چونکہ آئندہ وفاقی انتخابات کے بعد اقتدار سے دستبردار ہو رہی ہیں اس لیے یہ ان کا امریکا کا آخری سرکاری دورہ ہے۔ صدر جو بائیڈن نے ان کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا اور دونوں رہنماؤں نے بہت اہم عالمی امور پر گفتگوکی۔
ایک ایسے وقت جب امریکا نے بھی افغانستان سے اپنی فوج کا تقریباً نوے فیصد تک انخلا مکمل کر لیا ہے، جرمن چانسلر نے کہا کہ وہاں مجموعی طور پر جرمنی کی شراکت داری اچھی رہی تاہم بعض چیزوں پر افسوس بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بد قسمتی سے ہم جس طرح سے اس ملک کو دیکھنا چاہتے تھے ویسا ہم اسے تعمیر نہیں کر سکے۔''
تاہم انہوں نے کہا اس کے بعض مثبت پہلو بھی ہیں، '' کتنے برسوں تک ہم نے افغانستان میں ایک ساتھ مل کر خدمات انجام دیں، ایک خاص حد تک دہشت گردی کے خطرات پر قابو پا یا۔'' پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے امریکا اور یورپ کے درمیان بہترین تعلقات کے حوالے سے اپنے اپنے عزائم کا اعادہ کیا اور روس کی جارحیت کے خلاف ایک ساتھ کھڑے رہنے کی بات کہی۔
نورڈ اسٹیم 2 گیس پائپ لائن کا تذکرہ
صدر جو بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ امریکا اور جرمنی روسی جارحیت کے خلاف مشرقی یورپی ممالک کی مدد کرنے میں متحد ہیں اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ماسکو کو اپنے پڑوسیوں پر دھونس جمانے کے لیے توانائی کو استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
اشتہار
ان کا کہنا تھا، '' ہم نیٹو کے اپنے مشرقی یورپ کے دوست اتحادیوں کا دفاع کرنے کے لیے روسی جارحیت کے خلاف مل کر کھڑے ہیں اور ساتھ رہیں گے۔'' ان کا مزید کہنا تھا، ''جب میں نے نورڈ اسٹریم 2 کے بارے میں اپنے خدشات کا پھر سے ذکر کیا تو، چانسلر میرکل اور میں اس وعدے پر پوری طرح سے متحد ہیں کہ روس کو اپنے پڑوسیوں کو مجبور کرنے یا دھمکی دینے کے لیے توانائی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''
امریکا اور جرمنی کے درمیان اس گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے کافی اختلافات رہے ہیں۔ یہ پائپ لائن یورپ کو روسی گیس کی ترسیل کے لیے تیار کی جا رہی ہے اور اس کی تعمیر پر تقریباً گیارہ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔یہ اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
چین کے حوالے سے دونوں رہنماوں کا موقف
امریکی صدر نے اس موقع پر ہانگ کانگ کے حوالے چین پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ وہاں حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ''چینی حکومت نے ہانگ کانگ سے متعلق جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کر رہی ہے جبکہ وہاں حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔''
دوسری جانب جرمنی اور چین کے درمیان گہرے کاروباری رشتے ہیں اسی لیے انگیلا میرکل نے موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس وبا جیسے امور میں بیجنگ کے ساتھ تعاون کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ مزدورں کے حقوق، تجارت اور سائبر سکیورٹی جیسے امور پر تمام مغربی ممالک کو چین کے ساتھ مربوط رد عمل کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر، ''امریکا اور جرمنی کو اپنی مشترکہ اقدار پر مبنی کمیونکیشن کی ضرورت ہے۔''
دونوں رہنماوں کے درمیان اس کے علاوہ موسم کی تبدیلی اور ماحولیات سے متعلق لاحق خطرات، کورونا وائرس کی وبا اور دیگر اہم امور پر بھی بات چیت ہوئی۔ جمعرات کو کاروباری شخصیات سے ملاقات کرنے کے بعد جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ایک پروگرام کے دوران جرمن چانسلر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ میرکل نے وہاں شرکاء سے خطاب بھی کیا۔
ص ز/ (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی، روئٹرز)
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔