1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

جرمن چانسلر اولاف شولس اچانک دورے پر یوکرین میں

2 دسمبر 2024

چند برسوں بعد گزشتہ ماہ پہلی بار روسی صدر پوٹن سے فون پر بات کرنے کے بعد شولس کا یہ یوکرین کا پہلا دورہ ہے۔ جرمن چانسلر کے اس دورے کا مقصد کییف کے لیے برلن کی مستقل حمایت کا اعادہ کرنا ہے۔

جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین کو اپنی طرف سے مسلسل حمایت کی تجدید کے لیے کییف کا دورہ کیا
جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین کو اپنی طرف سے مسلسل حمایت کی تجدید کے لیے کییف کا دورہ کیاتصویر: Gleb Garanich/REUTERS

جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین کو اپنی طرف سے مسلسل حمایت کی تجدید کے لیے آج بروز پیر کییف کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ اس جنگ زدہ ریاست کے پہلے بڑے اتحادی ملک کے سربراہ کے طور پر سالوں بعد روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بات چیت کے بعد عمل میں آیا ہے۔ اس بات چیت میں شولس نے پوٹن پر جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا۔

جرمن چانسلر یہ اچانک دورہ ایک ایسے وقت پر بھی کر رہے ہیں، جب یوکرینی افواج کو روس کے خلاف مشرقی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ جنوری میں وائٹ ہاؤس میں واپس آنے کے بعد مستقبل کی امریکی حمایت سے متعلق خدشات بھی لاحق ہیں۔ روس نے پیر کے روز شولس کے کییف پہنچنے سے چند گھنٹے قبل سینکڑوں ڈرونز کے ساتھ ایک اور بڑا فضائی حملہ کیا، جس سے یوکرین کے مغربی شہر ترنوپل میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔

چانسلر شولس کا کہنا تھا کہ وہ صدر وولودیمیر زیلنسکی ے ملاقات کریں گے اور سال کے آخر تک 650 ملین یورو (680 ملین ڈالر) مالیت کے فوجی امداد کے ایک اور پیکج کا اعلان بھی کریں گے۔

چانسلر شولس نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ہمراہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی عیادت بھی کی تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

گزشتہ ماہ جرمنی میں حکمران حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد آئندہ فروری میں نئے قومی انتخابات کا سامنا کرنے والے اولاف شولس نے کہا، ''میں یہاں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ جرمنی یورپ میں یوکرین کا سب سے مضبوط حامی رہے گا۔‘‘ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں مزید کہا، ''یوکرین جرمنی پر بھروسہ کر سکتا ہے، ہم جو کہتے ہیں وہ  ہم کرتے ہیں، اور ہم وہی کرتے ہیں جو ہم کہتے ہیں۔‘‘

شولس نے نومبر کے وسط میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے والے برسوں میں پہلے مغربی رہنما بن کر یوکرین میں تنازعے اور تشویش کو جنم دیا تھا۔ صدر زیلنسکی نے تب اس فون کال پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل نے ولادیمیر پوٹن کی بین الاقوامی تنہائی کو کمزور کر کے ایک ''پنڈورا باکس‘‘ کھول دیا ہے۔

جرمن چانسلر کے دفتر نے کہا تھا کہ اس کال میں شولس نے جنگ کی مذمت کی اور ''روس پر زور دیا کہ وہ یوکرین کے ساتھ منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول کی خاطر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کرے۔‘‘ کریملن نے پیر کے روز کہا کہ اسے شولس کے دورہ یوکرین سے کوئی توقعات نہیں ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا، ''میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہمیں اس دورے سے کوئی توقعات ہیں۔ جرمنی یوکرین کے لیے اپنی غیر مشروط حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر پوٹن نے شولس کے ذریعے زیلنسکی کو کوئی پیغام نہیں بھجوایا۔

اولاف شولس کا یہ دورہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور نئے امریکی صدر حلف برداری کی تقریب کے انعقاد قبل ہوا ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ کوجلد ازجلد ختم کرانے کا وعدہ کر رکھا ہے، جس سے ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ یوکرین کو ماسکو کی شرائط پر معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے۔

شولس نے گزشتہ ماہ کی برسوں کے بعد روسی صدر پوٹن سے فون پر بات کی تھی تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

چانسلر شولس کی حکومت کے زیر انتظام جرمنی امریکہ کے بعد یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے لیکن اس نے کیف کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھیجنے سے انکار کر دیا تھا، جو روس کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے یوکرین کو پہلی بار روس پر  حملوں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ATACMS میزائل استعمال کرنے کی اجازت دیے جانے کے باوجود برلن حکومت اپنے اس نقطہ نظر پر قائم ہے کہ وہ کییف کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل مہیا نہیں کرے گی۔

ہفتے کے روز برلن میں اپنی سیاسی انتخابی مہم کے دوران ایک تقریر میں شولس نے اپنے سیاسی حریفوں پر تنقید کی، جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے جرمن ٹورس میزائل سسٹم یوکرین کو فراہم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اپنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اولاف شولس نے کہا کہ ماسکو جیسی ایٹمی طاقت کے ساتھ اس طرح کی محاذ آرائی جرمن سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

ش ر ⁄ م م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

یوکرینی جنگ کے ہزار دنوں میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا؟

02:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں