جرمن چانسلر شولس براعظم افریقہ کے دوسرے بڑے دورے پر
4 مئی 2023
وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس جمعرات چار مئی کے روز افریقہ کے اپنے دوسرے بڑے اور اہم دورے پر روانہ ہو گئے۔ ان کی پہلی منزل ایتھوپیا ہو گا۔ اپنے اس دورے کے دوران وہ افریقی یونین کے مرکزی رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ دورہ اولاف شولس کا بطور چانسلر افریقی براعظم کا دوسرا دورہ ہے۔ وہ آج ہی پہلے ایتھوپیا پہنچیں گے، جہاں وہ حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ افریقی یونین کے رہنماؤں سے بھی بات چیت کریں گے۔
آج جمعرات ہی کی شام چانسلر شولس ایتھوپیا سے کینیا روانہ ہو جائیں گے، جو مشرقی افریقہ میں جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ملک ہے۔
چانسلر شولس کے اس دورے کے دوران ان کی افریقی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں مرکزی موضوعات مسلح تنازعات کے حل، امن دستوں کی تعیناتی، تحفظ ماحول اور گرین انرجی جیسے امور ہوں گے۔
اس دوران وہ افریقی رہنماؤں کے ساتھ اپنی بات چیت میں یوکرین پر روسی فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی روسی یوکرینی جنگ کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
ہرار ایتھوپیا میں اسلام کا مرکز ہے اور اسے دنیا میں مسلمانوں کا چوتھا مقدس ترین شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک قدیم مشرقی شہر
ہرار کی بنیاد دسویں سے تیرہویں صدی کے درمیان یہاں نقل مکانی کر کے آنے والے عربوں نے رکھی تھی۔ اس شہر کے قدیمی حصے تک رسائی پانچ بڑے دروازوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اور یہاں زیادہ تر اُورومو نسل آباد ہے۔ سن دو ہزار چھ سے یہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
مسلمان زائرین کی منزل
اس شہر میں بیاسی چھوٹی بڑی مساجد کے علاوہ ایک سو سے زائد مزار بھی ہیں۔ جامع مسجد اس کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد ہے۔ ایتھوپیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
ایک مسجد خواتین کے لیے
جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے، جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لیے مسجد کی دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ رکھا گیا ہے۔ لیکن خواتین مسجد کے صحن یا بیرونی حدود میں بھی نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
امن کا شہر
قدیم شہر کی دیواروں کے اندر دو چرچ بھی واقع ہیں۔ میدان علم چرچ یہاں کا واحد آرتھوڈکس چرچ ہے۔ ہرار کے باشندوں کو یہاں قائم مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہاں زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ مسائل سامنے آئے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
تصوف کے ذریعے پاکیزگی
ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آبادی والے اس شہر کو یہاں کی صوفیانہ تعلیمات منفرد بناتی ہیں۔ سب سے مقدس مزار شیخ ابادر کا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شمار اس شہر کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر ایسے مریدین کا بھی ہجوم رہتا ہے، جو نشے آور قات نامی پودے کے پتے چباتے رہتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
قات کے پتے
شروع میں قات کے پتوں کو صرف روحانی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایتھوپیا بھر میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ہرار کا مضافاتی علاقہ اب بھی ان پتوں کی تجارت اور استعمال کا مرکز ہے۔ علاقے کی ستر فیصد زراعت اسی پر مشتمل ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان پتوں کا استعمال کرتی ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
کپڑوں کی خریداری
ہرار کی معیشت کپڑوں کی صنعت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کے مرکزی بازار کو ’مکینا گِر گِر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام یہاں جگہ جگہ رکھی ہوئی سلائی مشینوں کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ لوگ یہاں سے ہی کپڑے خریدتے ہیں اور انہیں یہاں بیٹھے ہوئے درزیوں کو ہی سینے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
سات دن ہی مارکیٹ کھلی ہے
بازاروں میں صبح صبح ہی ہجوم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے مضافات سے بھی اُورومو نسل کے لوگ اپنے اشیاء بیچنے کے لیے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک گدھوں کے ذریعے کئی گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں اسمگلر مارکیٹ، مسلم مارکیٹ، تازہ سبزی مارکیٹ اور مصالہ مارکیٹ سب سے مشہور ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
اونٹوں کی مارکیٹ
ہرار سے چالیس کلومیٹر دور اونٹوں کی مشہور مارکیٹ واقع ہے۔ یہ ایک ہفتے میں دو مرتبہ لگتی ہے۔ صرف ایک صبح میں دو سو سے زائد اونٹ فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر صومالیہ کے گلہ بان تاجر ہوتے ہیں۔ اونٹ سفر اور خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Gerth-Niculescu
9 تصاویر1 | 9
آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا افریقی ملک
جرمن سربراہ حکومت کے دورہ ایتھوپیا کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی تقریباﹰ 120 ملین کی آبادی کے ساتھ ایتھوپیا نائیجریا کے بعد افریقہ کی دوسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔
اس ملک کے انتہائی شمال میں تیگرائی کے خطے میں دو سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں لاکھوں شہری مارے گئے تھے اور اس خونریز تنازعے میں فریقین کے مابین فائر بندی ابھی گزشتہ برس نومبر میں ہی ہوئی تھی۔
اس دورے کے دوران جرمن کاروباری اداروں کے اعلیٰ نمائندوں کا ایک وفد بھی چانسلر شولس کے ہمراہ ہے۔
بڑھتے درجہ حرارت اور شدید گرمی نے دنیا کے کئی ممالک کو شدید متاثر کیا ہے۔ چین سے امریکہ اور ایتھوپیا سے برطانیہ تک سبھی ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے۔ صورت حال تصاویر میں۔
تصویر: CFOTO/picture alliance
قرن افریقہ میں قحط کے خدشات
ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ پچھلے چالیس برسوں کی بدترین خشک سالی کا شکار ہیں۔ یہاں مسلسل کئی موسموں سے بارش نہیں ہوئی۔ خشک سالی کی وجہ سے اس پورے خطے میں خوراک کی قلط پیدا ہو گئی ہے اور یہاں بسنے والے 22 ملین افراد کے بھوک کے شکار ہو جانے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ اب تک خشک سالی کی وجہ سے ایک ملین افراد اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں۔
تصویر: Eduardo Soteras/AFP/Getty Images
یانگتسی کا خشک دریا
دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دریائے یانگتسی چین میں ریکارڈ ساز خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پچھلے برس پانی کی کم سطح کی وجہ سے اس دریا سے جڑے ہائیڈرو پاور ڈیموں سے چالیس فیصد کم بجلی بنی، جب کہ یہ دریا شپنگ روٹ کے لیے بھی موزوں نہیں رہا ہے۔ اس صورتحال میں توانائی کی قلت کے پیش نظر بجلی کی بچت کے لیے تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔
تصویر: Chinatopix/AP/picture alliance
عراق سے بارش غائب
عراق ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور یہاں خشک سالی کی وجہ سے صحرائی پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے تین برس سے عراق میں بارش نہیں ہوئی ہے۔ عراق کا جنوبی حصہ جسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع والے علاقوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، اب مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عراق میں مجوعی زرعی پیداوار میں سترہ فیصد کمی آئی ہے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP
امریکہ میں پانی سے جڑی پابندیاں
امریکہ کا دریائے کولوراڈو پچھلی دو دہائیوں سے خشک سالی کا شکار ہے اور اس صورتحال کو پچھلے ایک ہزار سے زائد برسوں کی بدترین صورت حال قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ دریا امریکہ کے جنوب مغرب سے میکسیکو کی جانب بڑھتا ہے اور اپنے آس پاس لاکھوں افراد کی زرعی سرگرمیوں کا ضامن ہے۔ تاہم مسلسل کم بارشوں کے باعث اس دریا کے پانی کے استعمال سے متعلق پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
تصویر: John Locher/AP Photo/picture alliance
نصف یورپ خشک سالی کا شکار
یورپ میں حالیہ کچھ برسوں میں گرمی کی لہروں، کم بارش اور جنگلاتی آگ کے واقعات مسلسل دیکھے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ حالت گذشتہ پانچ سو برسوں کی بدترین صورتحال ہے۔ یورپ کے کئی اہم دریا بہ شمول دریائے رائن، پو اور لوئرے میں پانی کی سطح انتہائی کم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے توانائی کی پیدوار کے علاوہ کارگو بحری جہازوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں یورپ میں زرعی شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔
تصویر: Ronan Houssin/NurPhoto/picture alliance
برطانیہ میں پائپ لگا کر پانی استعمال کرنے پر پابندی
انگلینڈ کے متعدد علاقوں کو رواں برس اگست میں ’خشک سالی کے شکار‘ علاقوں کو درجہ دے دیا گیا ہے۔ جولائی کے مہینے کو انگلینڈ میں 1935کے بعد سب سے خشک جولائی قرار دیا گیا ہے۔ اس دوران ملک میں دریا غیرمعمولی طور پر کم ترین سطح پر دیکھے گیے۔ اسی صورتحال میں حکومت نے ہوزپائپ استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔
تصویر: Vuk Valcic/ZUMA Wire/IMAGO
اسپین بدترین خشک سالی کا شکار
یورپ میں شدید گرمی اور خشک سالی کا سب سے زیادہ شکار اسپین ہوا ہے۔اس دوران اسپین میں کئی مقامات پر جنگلاتی آگ نے مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ ہیکٹر کے رقبے پر جنگلات کو خاکستر کر دیا ہے۔ ایک ڈیم میں پانی کی سطح تاریخ کی سب سے کم تر مقام پر پہنچ گئی ہے۔
تصویر: Manu Fernandez/AP Photo/picture alliance
ایک خشک دنیا
ٹوکیو سے کیپ ٹاؤن تک کئی ممالک اور شہر شدید گرمی اور حدت سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال میں جدید ٹیکنالوجی ہی نہیں سادہ حل بھی فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ سنیگال میں کسان دائروی شکل میں پودے اگا رہے ہیں، تاکہ کہ وہ مرکز کی جانب نمو پائیں اور یوں پانی کا ضیاع نہ ہو۔ چلی اور مراکش میں ہوا سے آبی بخارات نچوڑنے کے لیے جال لگائے جا رہے ہیں۔
تصویر: ZOHRA BENSEMRA/REUTERS
8 تصاویر1 | 8
کینیا کے گرین انرجی منصوبے
کینیا کے دورے کے دوران جرمن چانسلر کی توجہ زیادہ تر ماحول دوست گرین انرجی منصوبوں پر مرکوز رہے گی۔ اس دوران اولاف شولس اس افریقی ملک میں جھیل نائیواشا کے کنارے براعظم افریقہ کے سب سے بڑے جیوتھرمل انرجی پلانٹ کا دورہ بھی کریں گے۔
افریقہ میں کینیا کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ملک اس براعظم میں علاقائی تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کے حوالے سے بہت فعال ہے۔
سوڈان میں جاری خونریز تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کوششوں میں بھی اب تک کینیا کا کردار بہت کلیدی رہا ہے۔ کینیا نے کونگو اور ایتھوپیا میں بھی مسلح تنازعات کے حل میں مدد کرتے ہوئے ثالثی کی نیت سے مداخلت کی تھی۔
اس کے علاوہ کینیا کی طرف سے اس کے شمالی ہمسایہ ملک صومالیہ میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری کے لیے افریقی یونین کے مشن کی بھی بھرپور تائید و حمایت کی جاتی ہے۔
م م / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)
یورپ کا توانائی کا بحران، کیا افریقہ مدد کر سکتا ہے؟