جرمن چانسلر میرکل امریکا کے اپنے آخری سرکاری دورے پر
15 جولائی 2021
جرمنی اور امریکا کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ملاقات میں بعض مشکل موضوعات بھی زیر بحث آنے کے امکانات ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل 14 جولائی بدھ کے روز امریکا کے دورے پر واشنگٹن پہنچی جو ممکنہ طور پر بطور چانسلر ان کا آخری دورہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ آئندہ ستمبر میں ہونے والے وفاقی انتخابات کے بعد اقتدار سے دستبردار ہو جائیں گی۔ محترمہ میرکل گزشتہ تقریبا ً16 برسوں سے جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
گرچہ انگیلا میرکل کا دور ختم ہونے کو ہے تاہم جرمنی اور امریکا کے درمیان نئے رشتوں کی شروعات کے لحاظ اس دورے کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں برلن اور وشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے تھے۔
بائیڈن انتظامیہ نے گوکہ ٹرمپ کی ''امریکا پہلے'' کی پالیسی اور یکطرفہ کارروائیوں کی روش سے الگ راہ اختیار کرنے کی بات کہی ہے تاہم اس کے باوجود میرکل اور بائیڈن کے درمیان ہونے والی بات چیت میں بعض ایسے دو طرفہ مسائل پر زیر گفتگو آنے کے امکانات ہیں جن پر دونوں کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے 16 سالہ دور اقتدار میں بیس سے بھی زیادہ مرتبہ امریکا کا دورہ کرچکی ہیں تاہم گزشتہ تین برس کے دوران وائٹ ہاؤس میں ان کا جمعرات کو پہلی بار استقبال ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد سے وہ وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والی پہلی یورپی رہنما بھی ہیں۔
اشتہار
کن امور پر بات چيت کا امکان ہے؟
چین سے نمٹنے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے نقطہ نظر میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور توقع ہے کہ میرکل اور بائیڈن کے درمیان اس معاملے پر کھل کر بات ہو گی۔ امریکا نے بعض جرمن ساز و سامان پر اضافی ٹیکس نافذ کر رکھا ہے جبکہ کورونا وائرس کے سبب یورپ سے آنے والے مسافروں پر امریکا میں داخلے پر اب بھی بعض پابندیاں عائد ہیں۔ دونوں رہنماؤں میں ان تمام امور پر گفت و شنید ہو گی۔
ایک اہم موضوع روس سے یورپ آنے والی نارتھ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن ہے۔ امریکا اور جرمنی کے درمیان اس منصوبے کے حوالے
سے کافی اختلافات رہے ہیں۔ یہ پائپ لائن یورپ کو روسی گیس کی ترسیل کے لیے تیار کی جا رہی ہے اور اس کی تعمیر پر تقریباً گیارہ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ امکان ہے کہ دونوں رہنما اس پر بھی تفصیلی بات کریں گے۔
بائیڈن نے کورونا وائرس کی ویکسین کو پیٹنٹ نہ کرانے کی تجویز پیش کہ تاکہ سبھی کو ویکسین تک رسائی مہیا ہو سکے جبکہ جرمنی کا موقف اس کے برعکس ہے اور وہ ویکسین کے پیٹنٹ کا قائل ہے۔ اطلاعات کے مطابق غالب امکان اس بات کا ہے کہ اس موضوع پر بھی بات چیت ہو گی۔
امریکی حکومت کے ذرائع کے مطابق دونوں رہنما موسم کی تبدیلی اور ماحولیات سے متعلق لاحق خطرات پر بھی بات چیت کریں گے اور ''مشترکہ جمہوری اقدار کی بنیاد پر معاشی خوشحالی اور بین الاقوامی سلامتی کو فروغ دینے پر زور دیں گے۔''
امریکا میں میرکل کی مصروفیات
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اسٹیفین زیبرٹ کے مطابق 15 جولائی جمعرات کے روز جرمن چانسلر امریکا کی نائب صدر کمالہ ہیرس سے ناشتے پر ملاقات کریں گی اور دونوں ملکوں کے رشتوں پر بات چیت ہو گی۔
اس کے بعد وہ کاروباری شخصیات سے ملاقات کریں گے اور جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ان کا ایک پروگرام ہے جہاں انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے گا اور چانسلر یہاں خطاب بھی کریں گی۔
دوپہر بعد صدر جو بائیڈن ان کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کریں گے اور پھر دونوں ملکوں کے وفود میں بات چیت ہو گی۔ شام کو جرمن رہنما صدر بائیڈن کی رہائش گاہ پر ہونے والے عشائیے میں شریک ہوں گی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔