جرمن چانسلر میرکل نے برطانیہ کی بریگزٹ تجاویز رد کر دیں
مقبول ملک ڈیوڈ مارٹن
25 ستمبر 2018
جرمن چانسلر میرکل نے برطانوی وزیر اعظم مے کی بریگزٹ تجاویز مسترد کر دی ہیں۔ میرکل کے بقول اگر برطانیہ آئندہ بھی یورپی مشترکہ منڈی میں رہنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مفادات کے مطابق یورپی منڈی کے مخصوص حصے منتخب نہیں کر سکتا۔
اشتہار
وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق یہ بات طے ہے کہ برطانیہ اگلے برس اکتیس مارچ تک یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں کسی باقاعدہ برطانوی یورپی معاہدے کے حوالے سے لندن حکومت کی طرف سے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، وہ قابل قبول نہیں ہیں۔
انگیلا میرکل کے مطابق یونین سے اپنے اخراج یا بریگزٹ کے بعد بھی اگر لندن حکومت چاہتی ہے کہ برطانیہ یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ رہے، تو لندن کی یہ تجویز یونین کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ وہ یورپی سنگل مارکیٹ کے مخصوص حصوں میں شامل رہنے کے لیے محض اپنے ہی مفادات کو پیش نظر رکھے۔
اس بارے میں انگیلا میرکل نے واضح طور پر کہا، ’’جرمنی ایسی ہر کوشش کی مخالفت کرے گا، جو پوری یورپی مشترکہ منڈی کے مفاد میں نہ ہو اور جس کے ذریعے عالمی تجارت کو کھوکھلا کرنے کی کوئی کاوش کی جائے۔‘‘
منگل پچیس ستمبر کو چانسلر میرکل نے لندن میں ویسٹ منسٹر کی ان توقعات کو بھی رد کر دیا کہ برطانیہ بریگزٹ کے بعد بھی پہلے کی طرح اشیاء کی یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ رہ سکتا ہے۔
تاہم اس اختلاف رائے کے باوجود جرمن سربراہ حکومت نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے مابین بریگزٹ سے متعلق ایک معاہدہ اکتوبر تک طے پا سکتا ہے۔
سب سے بڑا اختلاف
ملکی دارالحکومت برلن میں جرمن صنعتوں کی وفاقی تنظیم بی ڈی آئی کے زیر اہتمام سرکردہ کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انگیلا میرکل نے کہا، ’’یہ تو ہو نہیں سکتا، جیسے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے تجویز پیش کی ہے، کہ اگلے برس مارچ کے اختتام پر بریگزٹ کے بعد برطانیہ اشیاء کی یورپی سنگل مارکیٹ کا حصہ تو رہے لیکن سرمائے اور مالیاتی خدمات کے شعبے میں مشترکہ منڈی میں شامل رہنے سے انکار کر دے۔‘‘
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
چانسلر میرکل کی رائے میں یہ ممکن ہے کہ مستقل میں یورپی یونین اور برطانیہ کے باہمی روابط سے متعلق ایک ایسا معاہدہ طے پا جائے، جس میں فیصلہ کن اہمیت بہت قریبی نوعیت کے ایک آزاد تجاری علاقے کو دی جائے۔
میرکل کے الفاظ میں، ’’اگر ایسا نہ ہوا تو بریگزٹ کے حوالے سے ’عبوری مدت‘ کا اب تک طے شدہ 2020ء کے آخر تک کا عرصہ بھی کم پڑ جائے گا۔‘‘
یورپی یونین کے دیگر تقریباﹰ سبھی رکن ممالک کے رہنماؤں کی طرح جرمن چانسلر کی سوچ بھی یہی ہے کہ بریگزٹ سے متعلق بے یقینی کی صورت حال اور کسی بڑی مذاکراتی پیش رفت کی عدم موجودگی یورپی معیشتوں کے لیے بےچینی کا سبب بن رہی ہے۔
اسی لیے یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کی سربراہ حکومت کے طور پر انگیلا میرکل نے کہا، ’’کاروباری شعبوں کو واضح صورت حال اور شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں دیکھ سکتی ہوں کہ یورپی یونین کے لیے آنے والے دن اور ہفتے بہت ہی کٹھن اور صبر آزما ہوں گے۔‘‘
بریگزٹ مذاکرات میں اب تک کسی بڑی پیش رفت کا سامنے نہ آنا اور یورپی رہنماؤں کی طرف سے برطانوی وزیر اعظم مے کی پیش کردہ تجاویز کا رد کر دیا جانا خود ٹریزا مے اور ان کی حکومت کے لیے بھی شدید پریشانی اور دباؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔
ملکہ الزبتھ نے وکٹوریہ کا ریکارڈ توڑ دیا
وکٹوریہ تریسٹھ برس اور 216 دنوں تک برطانیہ کی ملکہ رہیں۔ نو ستمبر کی شام نواسی سالہ ملکہ الزبتھ ثانی نے وکٹوریہ کا برطانیہ میں طویل ترین حکمرانی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
تاریخ ساز شخصیت
ملکہ الزبتھ ثانی اپنے والد کی وفات کے بعد چھ فروری 1962ء کو برطانیہ کی ملکہ بنی تھیں۔ تب سے ہی وہ نہ صرف برطانیہ کی ملکہ ہیں بلکہ دولت مشترکہ ممالک اور چرچ آف انگلینڈ کی بھی سربراہ ہیں۔ وہ نو سمتبر 2015ء سے برطانیہ میں طویل ترین راج کرنے والی شخصیت بن گئی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
وکٹوریہ کا سنہرا دور
نو ستمبر 2015ء تک برطانیہ پر طویل ترین راج کرنے کا اعزاز ملکہ وکٹوریہ کو حاصل تھا۔ وہ 1819ء میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ 1837ء میں ان کی تاج پوشی کی گئی تھی۔ وہ 1901ء میں اپنے انتقال تک برطانیہ پر راج کرتی رہیں۔ ان کا دور تریسٹھ برس اور سات مہینوں پر محیط رہا۔ وکٹوریہ کے دور میں ہی برطانیہ نے اقتصادی ترقی کی منزلیں طے کیں اور برطانیہ کا راج تقریباً دنیا بھر تک پھیل گیا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images
عمر رسیدہ ترین ملکہ
ملکہ الزبتھ ثانی کو 20 دسمبر2007ء سے ہی برطانیہ کی عمر رسیدہ ترین ملکہ ہونے کا اعزاز ہے۔ قبل ازیں یہ اعزاز بھی وکٹوریہ کو ہی حاصل تھا۔ جب ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا تھا تو وہ 81 برس، سات مہینے اور29 دن کی تھیں۔ ملکہ الزبتھ اس سال اکیس اپریل کو 89 برس کی ہو گئیں۔ تئیس جنوری 2015ء کو سعودی بادشاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ملکہ الزبتھ نے دنیا بھر میں عمر رسیدہ ترین حکمران ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Michael
انڈیا کی واحد ملکہ
ملکہ وکٹوریہ کو ایک ایسا اعزاز حاصل رہا، جو ملکہ الزبتھ ثانی بھی نہ چھین سکیں۔ ملکہ وکٹوریہ یکم جنوری 1877ء کو برطانیہ کی ایسی پہلی ملکہ بنیں، جنہیں ’ایمپرس آف انڈیا‘ کا ٹائیٹل دیا گیا۔ اس وقت بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار انڈیا کا ہی حصہ تھے۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم ہو گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images
ملکہ الزبتھ جرمنی میں
ملکہ الزبتھ ثانی اپنے دور اقتدار میں سات مرتبہ جرمنی کا دورہ کر چکی ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 1965ء میں جرمنی کا دورہ کیا۔ اس تصویر میں وہ بون شہر میں جرمن صدر ہائنرش لُبکے کے ہمراہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس پہلے دورے میں ملکہ نے گیارہ روز تک جرمنی میں قیام کیا۔ اس دوران وہ سابق دارالحکومت بون کے علاوہ اس وقت کے منقسم برلن اور دیگر سولہ شہروں میں بھی گھومی پھریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Rehm
ملکہ الزبتھ اور جرمن
ملکہ الزبتھ نے حال ہی میں جون 2015ء میں جرمنی کا دورہ کیا تھا۔ اس تصویر میں وہ اپنے شوہر فیلپ، جرمن صدر یوآخم گاؤک اور ان کی اہلیہ کی ہمراہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تصویر برلن میں صدر کی رہاش گاہ کے سامنے ہی لی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
کوئین وکٹوریہ اوّل اور پرنس البرٹ
کوئین وکٹوریہ اوّل نے 1840ء میں پرنس البرٹ سے شادی کی۔ ان کے نو بچے ہوئے۔ البرٹ 1861ء میں صرف بیالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ البرٹ کی موت نے ملکہ الزبتھ اوّل کو شدید غم میں مبتلا کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ برسوں عوامی زندگی سے دور رہیں۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہاؤس آف لارڈز سے خطاب
ملکہ الزبتھ ثانی برطانوی پارلیمان سے اب تک 62 مرتبہ سالانہ خطاب کر چکی ہیں۔ برطانوی شاہی خاندان کی سربراہی سنبھالنے کے بعد موجودہ ملکہ نے اب تک 97 غیر ملکی دورے کیے ہیں، جن میں سے پہلا 1955ء میں سربراہ مملکت کے طور پر ان کا ناروے کا دورہ تھا اور آخری ابھی اسی سال جون میں جرمنی کا کئی روزہ سرکاری دورہ۔
تصویر: AP
شہزادی الزبتھ یونیفارم میں
دوسری عالمی جنگ کے دوران الزبتھ نے برطانوی فوج کے لیے ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ انہوں نے مکینیکس میں تعلیم حاصل کی تھی جبکہ وہ ٹرک چلانا بھی جانتی تھیں۔ یہ تصویر 1945ء میں لی گئی تھی۔
تصویر: public domain
تھائی لینڈ کے بادشاہ کے ساتھ
ملکہ الزبتھ نے 1972ء میں تھائی بادشاہ بھومی بول کی کے ہمراہ۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی ملک میں طویل ترین عرصے تک حکمرانی کرنے والی شاہی شخصیت تھائی لینڈ کے بادشاہ بھومی بول کی ہے، جنہیں تخت پر براجمان ہوئے قریب 69 برس ہو چکے ہیں۔ وہ برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کے تخت پر براجمان ہونے سے بھی چھ برس پہلے تھائی لینڈ میں بادشاہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔