جرمن چانسلر نے ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ’مسترد‘ کر دیا
7 فروری 2025رواں ماہ کی 23 تاریخ کو جرمنی میں ہونے والے قومی پارلیمانی انتخاباتکے سلسلے میں ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر شولس نے کہا، ''ہمیں غزہ کی آبادی کو مصر میں آباد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ شولس نے اس تجویز کو ''مکمل طور پر مسترد‘‘ کر دیا۔
فلسطینیوں کے ’رضاکارانہ انخلا‘ کا منصوبہ تیار کرنے کا حکم
ٹرمپ کا غزہ پٹی پر قبضے کا منصوبہ کس خواہش کی بازگشت؟
جرمنچانسلر نے دیگر ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی کو روکیں اور اسرائیل اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ واشنگٹن میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ غزہ کی 'ملکیت‘ لے لے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو خطے کے دیگر ممالک میں آباد کیا جا سکتا ہے۔ متعدد عرب حکومتوں نے فوری طور پر اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے بیانات جاری کیے تھے۔
بدھ پانچ فروری کو جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے برلن حکومت کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ غزہ پٹی کا علاقہ فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور غزہ سے کسی بھی طرح کا انخلا بین الاقوامی قوانین کے منافی ہوگا۔
روبیو آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا پہلا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بات امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتائی۔
روبیو 13 سے 18 فروری تک اسرائیل، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب کا دورہ کرنے سے قبل جرمنی کے شہر میونخ میں منعقدہ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
روئٹرز کے مطابق امریکی عہدیدار نے کہا کہ روبیو غزہ اور خطے میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدلنے کے امریکی صدر کے منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
ٹرمپ کا غزہ منصوبہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کے لیے نقصان دہ، تجزیہ کار
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دے گا اور تیل کی دولت سے مالا مال سعودی مملکت میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا بھی دے گا۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے محقق جیمز ڈورسی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر یہ ان کی پالیسی بنتی ہے، تو پھر انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے دروازے بند کر دیے ہیں۔‘‘
غزہ کی جنگ شروع ہونے تک سعودی عرب امریکہ کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کے قیام کے لیے ممکنہ مذاکرات کے سلسلے میں بات چیت کر رہا تھا، تاہم غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد ایہ سلسلہ ترک کر دیا گیا تھا۔
واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران دی گئی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر سعودی عرب کی طرف سے غیر معمولی تیزی کے ساتھ رد عمل سامنے آیا۔
ٹرمپ کے اس بیان کے تقریباﹰ ایک گھنٹے بعد سعودی وقت کے مطابق صبح چار بجے ملکی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا، جس میں فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو صاف صاف مسترد کر دیا گیا۔
اسی بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کو بھی مسترد کر دیا گیا کہ سعودی اسرائیلی تعلقات کا قیام عمل میں آنے والا ہے۔ اس بیان میں یہ بات دہرائی گئی کہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کوئی سعودی اسرائیلی تعلقات قائم نہیں ہوں گے۔
ا ب ا/ک م، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)