جرمن چانسلر کا دورہ بھارت: چین پر انحصار کم کرنے کی کوشش
24 اکتوبر 2024کاروں سے لے کر لاجسٹکس تک، جرمن کمپنیوں کو بھارت کی ترقی کے امکانات سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ وہ بڑی تعداد میں ہنر مند نوجوانوں، کم لاگت اور تقریباً 7 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ اسی امید میں جرمن چانسلر اولاف شولس ایک بڑے وفد کے ساتھ بھارت آئے ہیں۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جرمنی کی برآمدات پر مبنی معیشت کو مسلسل دوسرے سال کساد بازاری کا سامنا ہے۔ مزید برآں، یورپی یونین اور چین کے درمیان تجارتی تنازعہ کے بارے میں خدشات ہیں، جس سے جرمن کمپنیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی جرمن ہم منصب سے کیا باتیں ہوئیں؟
یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے قبل سستی روسی گیس پر ضرورت سے زیادہ انحصار کی وجہ سے جرمنی کو دھچکہ لگنے کے بعد "ڈی رسکنگ" کی پالیسی اپنائی گئی۔ جرمنی چین پر بھی اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم چین اب بھی جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
بھارت اہم ہے
جرمن چیمبر آف کامرس ڈی آئی ایچ کے میں غیر ملکی تجارت کے سربراہ وولکر ٹرایر نے کہا کہ 2022 میں بھارت میں جرمنی کی براہ راست سرمایہ کاری تقریباً 25 بلین یورو (27 بلین ڈالر) تھی، جو چین میں سرمایہ کاری کے تقریباً 20 فیصد کے برابر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دہائی کے آخر تک یہ حصہ 40 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
بھارت مستقبل میں جرمنی کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہوگا، جرمن وزیر
ٹرایر نے کہا، "چین سے تجارتی تعلق ختم نہیں ہوگا، لیکن بھارت جرمن کمپنیوں کے لیے زیادہ اہم ہو جائے گا۔ بھارت اس معاملے میں ایک تجربہ ہے۔ اگر چین سے خطرات کو کم کرنا ہے تو بھارت اس میں اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ یہاں کی مارکیٹ بڑی اور ملک کی اقتصادی رفتار تیز ہے۔"
شولس اپنی کابینہ کے بیشتر ارکان کے ساتھ جمعہ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے اور انڈیا-جرمن مذاکرات کے ساتویں دور کی صدارت کریں گے۔
'چین پلس ون' حکمت عملی
ایک تحقیقات کے مطابق جرمن کمپنیاں بیوروکریسی، بدعنوانی اور ٹیکس کے نظام کو بھارت میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ یہ مطالعہ کنسلٹنسی کمپنی کے پی ایم جی اور جرمن چیمبرز آف کامرس ابروڈ (اے ایچ کے) نے کیا تھا۔
پھر بھی، وہ بھارت میں ایک روشن مستقبل دیکھتی ہیں۔ 82 فیصد کمپنیوں کو توقع ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ 59 فیصد کمپنیاں اپنے سرمایہ کاری کے منصوبوں کو بڑھا رہی ہیں، جب کہ 2021 میں یہ تعداد صرف 36 فیصد تھی۔
مثال کے طور پر، جرمن لاجسٹکس کمپنی ڈی ایچ ایل 2026 تک بھارت میں 500 ملین یورو کی سرمایہ کاری کرے گی۔ یہ سرمایہ کاری تیزی سے بڑھتی ہوئی ای کامرس مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
ڈی ایچ ایل ڈویژن کے سربراہ آسکر ڈی بوک نے کہا، "ہم ایشیا پیسیفک خطے میں ترقی کی زبردست صلاحیت دیکھتے ہیں، جس میں بھارت ایک بڑا حصہ ادا کرتا ہے۔"
کار تیار کرنے والی جرمن کمپنی ووکس ویجن جسے چین میں فروخت میں کمی اور گھریلو پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بحران کا سامنا ہے، بھارت میں نئی شراکت داری کے امکانات پر غور کر رہی ہے۔ کمپنی کے پہلے ہی بھارت میں دو کارخانے ہیں اور اس نے فروری میں مقامی پارٹنر مہندرا کے ساتھ سپلائی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ووکس ویجن کے مالیاتی سربراہ آرنو اینٹلٹز نے مئی میں کہا تھا، "میرے خیال میں ہمیں نہ صرف مارکیٹ کے لحاظ سے، بلکہ امریکہ اور چین کے درمیان غیر یقینی صورت حال کے لحاظ سے بھی بھارت کی صلاحیت کو کم کرکے نہیں دیکھنا چاہیے۔"
اسی طرح کولون میں واقع انجن بنانے والی کمپنی ڈیوٹز نے اس سال بھارت کی موٹر کمپنی ٹیف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو دنیا کی تیسری بڑی ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ٹیف ڈیوٹز کے لائسنس کے تحت 30,000 انجن تیار کرے گی۔
بھارت میں رکاوٹیں
کنسلٹنسی فرم بی سی جی کے مینیجنگ ڈائریکٹر جوناتھن براؤن کہتے ہیں، "بھارت کے حق میں اہم دلائل سیاسی استحکام اور سستے مزدور ہیں۔ اس لیے آپ کو چین پلس ون حکمت عملی اپنانی چاہیے جس میں بھارت کلیدی کردار کرتا ہے۔"
جرمنی اور بھارت کے درمیان تجارت نے 2023 میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ توقع ہے کہ دہائی کے آخر تک بھارت جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔
یورپی یونین اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کئی سالوں سے جاری ہے لیکن اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ بی سی جی کے جوناتھن براؤن کہتے ہیں، "مارکیٹ میں داخلے میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں لیکن ایک بار جب آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں، تو آپ کے پاس زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔ تاہم جرمن مصنوعات کو صرف فروخت کرنے سے کام نہیں چلے گا۔"
ج ا ⁄ ص ز ( ڈی پی اے ، روئٹرز)