جرمن چانسلر ہماری مدد کریں، ہانگ کانگ کے مظاہرین کی اپیل
4 ستمبر 2019
ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز کارکن جوشُوآ وونگ نے ایک کھلے خط کے ذریعے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ جرمن اخبار بلڈ کےمطابق وونگ نے میرکل سے اس عوامی تحریک کے کارکنوں سے ملاقات کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
اشتہار
جرمن روزنامے بلڈ نے ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی عوامی تحریک کے رہنما جوشُوآ وونگ کا وہ خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے جرمن چانسلر سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے دورہ چین کے موقع پر اس تحریک کی حمایت کا اظہار کریں۔ وونگ نے اس خط میں لکھا ہے، ''محترمہ جرمن چانسلر! آپ مشرقی جرمنی (عوامی جمہوریہ جرمنی) میں جوان ہوئیں۔ آپ کو بھی ایک آمرانہ حکومت کے ظلم کا تجربہ ہے۔‘‘
وونگ اور دوسرے جمہوریت نواز کارکنوں نے ہانک کانگ میں جاری ان مظاہروں اور چینی اثر و رسوخ کا 1989ء میں عوامی جمہوریہ جرمنی میں ہونے والے امن احتجاج سے موازنہ کیا ہے۔ تب سابقہ مشرقی جرمنی میں ہر پیر کو اس طرح کے پر امن مظاہرے کیے جاتے تھے۔ اس خط میں جرمن سربراہ حکومت سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے مظاہرین کے حق میں بولیں۔
بائیس سالہ وونگ نے لکھا ہے، ''جرمن شہری1980ء کی دہائی میں آمرانہ طرز حکومت کے خلاف بہادری سے کھڑے ہوئے تھے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ چین میں اپنے قیام کے دوران ہماری قیامت خیز صورتحال کے بارے میں اپنے تحفظات اور ہمارے مطالبات سے بیجنگ حکومت کو آگاہ کریں گی۔‘‘
جرمن چانسلر میرکل نے سابقہ کمیونسٹ جرمنی میں چار دہائیاں گزاریں تھیں اور وہ ایک محققہ کے طور پر سرد جنگ کے خاتمے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد یعنی 1990ء تک مشرقی جرمنی ہی میں رہی تھیں۔ میرکل نے دیوار برلن کے انہدام کو اپنی زندگی کا اہم ترین موڑ قرار دیا تھا۔
جرمن چانسلر میرکل اپنے تین روزہ دورے پر کل جمعرات پانچ ستمبر کو چین پہنچ رہی ہیں۔ اس دورے میں ایک بڑا تجارتی وفد بھی ان کے ہمراہ ہو گا۔
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
10 تصاویر1 | 10
اخبار بلڈ کی رپورٹ میں وونگ نے ہانگ کانگ میں کشیدگی میں اضافے کے خلاف خبردار بھی کیا ہے، ''ہمیں ایک ایسی آمرانہ حکومت کا سامنا ہے، جو آزادی کے بنیادی حقوق کی اجازت نہیں دیتی اور جو زیادہ سے زیادہ پرتشدد اقدامات کر رہی ہے۔ ایسا لگ رہا کہ بیجنگ کے تیانانمن اسکوائرکی طرح کے ایک نئے قتل عام کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘ وونگ نے اس خط میں مزید لکھا ہے کہ جرمنی کو چین کے ساتھ تجارت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ چین بین الاقوامی شہری حقوق کے قوانین کی پاسداری نہیں کرتا اور بار بار اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔
چین کے ایک خصوصی انتظامی علاقے کے طور پر ہانگ کانگ میں گزشتہ چند مہینوں سے شدید نوعیت کا سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ شروع میں یہ مظاہرے ایک متنازعہ قانون کی مجوزہ منظوری کے خلاف تھے۔ اب لیکن یہ مظاہرین ہانگ کانگ کی علاقائی حکومت کی بیجنگ نواز خاتون سربراہ کیری لَیم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔