1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چینی مکالمت: ’ڈیجیٹل دور میں شہری حقوق‘

16 جولائی 2012

آئین اور قانون کی حکمرانی کے موضوع پر جرمن چینی مکالمت کا سلسلہ گزشتہ بارہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ مکالمت کا موضوع ’ڈیجیٹل دور میں شہری حقوق‘ ہے۔

تصویر: AP

500 ملین سے زیادہ چینی شہری انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور یوں چین انٹرنیٹ کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ وہاں ٹویٹر کی طرح کی مختصر پیغامات والی ویب سائٹس کے صارفین کی تعداد بھی تقریباً 250 ملین ہے جبکہ خود ٹویٹر پر، جو اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، چین میں پابندی عائد ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ویڈیو پلیٹ فارم یو ٹیوب اور سب سے بڑے عالمی سوشل نیٹ ورک فیس بُک پر بھی چین میں پابندی ہے۔ ڈوئچے ویلے آن لائن کی وَیب سائٹس کو بھی رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے۔ یوں چین میں انٹرنیٹ کی آزادی سخت سنسرشپ کی زَد میں ہے۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق آج کل چین میں انٹرنیٹ کے شعبے میں سرگرم عمل ایسے 68 افراد حراست میں ہیں، جن کی تحریریں حکام کی ناراضگی کا باعث بنی تھیں۔

اس ساری صورت حال کے باوجود جرمنی اور چین نے اپنی بارہویں مکالمت کے لیے ’ڈیجیٹل دور میں شہری حقوق‘ کا موضوع منتخب کیا ہے۔ اس مکالمت کے دائرے میں ایسے سمپوزیم منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں سرکردہ سیاستدان، دانشور اور محققین شرکت کرتے ہیں۔ اس بار بھی ان مذاکروں میں ایسی تقریباً 100 شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔

میونخ میں جرمن چینی مکالمت کی میزبان امور انصاف کی خاتون جرمن وزیر زابینے لوئٹ ہوئیزر شنارن برگرتصویر: dapd

ناقدین بار بار اس مکالمت کے مؤثر ہونے کے بارے میں شک و شبے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار حلقے تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مکالمت کا مقصد انسانی حقوق پر بحث کو عوامی سطح پر سامنے آنے سے روکنا اور بند کمروں میں دھکیل دینا ہے۔ ممتاز چینی قانونی ماہر ژانگ سی ژی نے بھی اس سلسلے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’یہ مکالمت اب اتنے طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ کیا اس کا کوئی اثر ہوا؟ عوام کو تو چھوڑیں، قانونی ماہرین تک اس مکالمت سے بے خبر ہیں۔‘‘

چینی امور کی جرمن محققہ کاتیا لیوی نے 2010ء میں 400 صفحات پر مشتمل ایک مطالعاتی جائزے میں اس جرمن چینی مکالمت کا تجزیہ کیا تھا۔ اُن کے خیال میں اس مکالمت کے نتیجے میں خاص طور پر معاشی قوانین کے شعبے میں تو پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے لیکن بنیادی شہری حقوق اور انسانی حقوق کے معاملے میں ابھی بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

چین میں زیر حراست 32 سالہ جرمن بزنس مین نیلز ژینرشتصویر: picture-alliance/dpa

اپنے آئین کی رُو سے چین ایک ’سوشلسٹ آئینی ریاست‘ ہے تاہم آئین کی عبارت اور اصل حقائق میں ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ بیجنگ کے میڈیا سے متعلق امور کے ایک ماہر ہُو ژونگ چین میں انٹرنیٹ کی نگرانی سے متعلق کہتے ہیں کہ آئین اور قانون، دفتر شاہی کے ضوابط اور وزارتوں کے فرمان اپنی جگہ، آخری فیصلہ ہمیشہ پارٹی عہدیداران کا ہوتا ہے۔

16 جولائی سے جرمن شہر میونخ میں شروع ہونے والی جرمن چینی مکالمت میں امور انصاف کی خاتون جرمن وزیر زابینے لوئٹ ہوئیزر شنارن برگر اور اُن کے چینی ہم منصب سونگ ڈاہان بھی شریک ہیں اور اُن کے درمیان دیگر امور کے علاوہ اُس 32 سالہ جرمن بزنس مین نیلز ژینرش کے موضوع پر بھی بات ہونے کی توقع ہے، جس پر نہ تو ابھی تک کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے، نہ ہی اُس پر لگے الزامات کا کچھ پتہ ہے لیکن وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بیجنگ کی ایک جیل میں بند ہے اور اُسے ضمانت پر بھی رہا نہیں کیا جا رہا۔

M. v. Hein / aa / mm

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں