ایک رپورٹ کے مطابق کوئی بھی یہ آسانی کے ساتھ پتہ چلا سکتا ہے کہ ڈیٹنگ ایپ Lovoo کے صارفین کہاں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ تاہم اس ایپ کی مالک کمپنی نے صارفین کے تحفظ کے بارے میں تحفظات کو غیر اہم قرار دیا ہے۔
اشتہار
جرمن ڈیٹنگ ایپ Lovoo کے صارفین کی تعداد تقریبا چھ ملین کے قریب بنتی ہے۔ اس ایپ کی مدد سے خواتین اور مرد ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کے صارفین ایک دوسرے سے چیٹ کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی طویل المدتی بنیادوں پر یا ون نائٹ اسٹینڈ قائم کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کی منتظم کمپنی کے مطابق اس پلیٹ فارم پر جنسی یا نفسیاتی تسکین کی خاطر متعدد آپشنز موجود ہیں۔
حال ہی میں صحافیوں نے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس ایپ کے صارفین ایک دوسرے کے ڈیٹا تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی صارف کہاں رہتا ہے اور کہاں کام کرتا ہے۔
پبلک براڈ کاسٹر Bayerischer Rundfunk کے مطابق صحافیوں کی ایک ٹیم نے اس ایپ کے ایسے صارفین کی لوکیشن معلوم کر لی، جو تیس یا پچاس میٹر دور کہیں موجود تھے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے جیو میٹرک پیمائش کا آسان سا طریقہ استعمال کیا۔
اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد ایسے تحفظات پیدا ہو گئے ہیں کہ اس ڈیٹنگ ایپ کے صارفین کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسا خوف بھی پیدا ہوا ہے کہ ان صارفین کی لاعلمی میں بھی انہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اس ایپ میں راڈار کا ایک ایسا نظام ہے، جس کی مدد سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں اس ایپ کے صارفین کہاں کہاں موجود ہیں۔ اس فنکشن کا مقصد صارفین کو ایک دوسروں کی لوکیشن کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے قریبی علاقوں میں دیگر صارفین کی موجودگی کا پتہ چلا سکیں۔
اس ڈیٹنگ ایپ کی مالک کمپنی نے اس رپورٹ کے بعد کہا کہ اسے ایسی کوئی معلومات نہیں کہ صارفین کو کوئی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ایک بیان کے مطابق، ''اپنے صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کی خاطر متعدد قسم کی ٹیکلنیکل اور انتظامی نظام بنائے گئے ہیں۔‘‘
اس کمپنی کے مطابق اس ایپ کے کسی بھی صارف کے درست مقام کے بارے میں پتا نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ صارفین کو صرف ایسے سگنلز موصول ہوتے ہیں، جن سے وہ دیگر صارفین کے کسی علاقے میں موجود ہونے کے بارے میں علم حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کی درست لوکیشن کے بارے علم حاصل کرنے کی خاطر دونوں صارفین کا رضا مند ہونا ضروری ہے۔
آپ آئی فون کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟
2016ء میں پہلی بار آئی فون کی فروخت میں کمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایپل کی کل کمائی کا 63 فیصد حصہ آئی فون سے آتا ہے۔ آئی فون اپنے لیے مارکیٹ میں ایک خاص مقام بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
جی ہاں، ’جامنی‘
جس وقت آئی فون صرف ڈرائنگ بورڈ پر بنا ایک آئيڈيا تھا، اس کا پروجیکٹ کوڈ ’جامنی‘ تھا۔ ایپل کے ایک سابق مینیجر کے مطابق جامنی کی ٹیم جس جگہ کام کرتی تھی، وہ کسی ہاسٹل کے کمرے سے ملتا جُلتا تھا۔ کمرے میں پیزا کی مہک تھی اور دیواروں پر ایک فائٹ کلب کے پوسٹر۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
کیا وقت ہوا ہے؟
سٹیو جابز پہلا آئی فون 29 جون 2007ء کو صبح 9:42 بجے دنیا کے سامنے لائے۔ تقریب کا وقت اس طرح کا رکھا گیا تھا کہ جب لوگ نئی مصنوعات کی تصاویر دیکھیں تو ڈسپلے پر وہی وقت نظر آ رہا ہو، جو اُس لمحے اصل وقت ہو۔ وقت کی اس پابندی کا خیال کمپنی ہمیشہ رکھتی چلی آئی ہے گو 2010ء میں آئی پیڈ لانچ کرتے وقت ایک منٹ کا فرق آ گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Mabanglo
اگلی جنریشن کی ٹیکنالوجی
یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلا آئی فون 599 ڈالر کا تھا جو کہ تب خاصا مہنگا تھا لیکن ایک فون وہ سب کچھ کر سکتا تھا، جو اس وقت تک مجموعی طور پر 3000 ڈالر کی قیمت والے مختلف آلات مل کر کرتے تھے۔ آئی فون نے سی ڈی پلیئر، کمپیوٹر، فون اور آنسرنگ مشین سب کی ایک ساتھ جگہ لے لی۔
تصویر: colourbox
کیا سکرین پر کریک ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ جیب سے جلدی میں فون نکالتے ہوئے اکثر فون ہاتھ سے پھسلتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے۔ ایسے میں آئی فون کی سکرین اکثر چٹخ جاتی ہے لیکن اسکائی ڈائیور جیرڈ میکنی نے 2011ء میں اپنا آئی فون 13،500 فٹ کی بلندی سے نیچے گرا دیا۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اتنی بلندی سے نیچے گرنے کے باوجود وہ اپنے اس فون سے کالز کر سکتا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
آئی فون کا آئیڈیا آئی پیڈ سے آیا
2000ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ایپل کمپنی ورچوئل کی بورڈ والے ایک ٹیبلیٹ کمپیوٹر کی تیاری پر کام کر رہی تھی۔ ایک دن ایپل کے ملازمین اپنے موبائل فون کی سست رفتاری پرتنقید کر رہے تھے تو انہیں اچانک یہ خیال آیا کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے آئی پیڈ بنانے کا سوچا جا رہا ہے، اُسی کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طرح کا فون بھی تو بنایا جا سکتا ہے۔ اور تب وہ ایک انقلابی نوعیت کا سمارٹ فون بنانے میں جُت گئے۔
تصویر: Getty Images/Feng Li
کروڑوں آئی فون فروخت
ایپل 2007ء سے اب تک تقریباً 90 کروڑ آئی فون فروخت چکا ہے لیکن چین میں اقتصادی بحران کی وجہ سے ایپل نے پہلی بار خبردار کیا ہے کہ اس کی 2016ء کے پہلے کوارٹر کی فروخت 2015ء کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے تاہم لوگوں میں ایپل کا جنون اُسی طرح سے برقرار ہے۔
تصویر: DW/M.Bösch
محبت بھی نفرت بھی
ایک دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ایپل اور سام سنگ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں کمپنیوں کے درمیان پیٹنٹ کے موضوع پر برسوں سے کئی بڑے مقدمے چل رہے ہیں تاہم ایک محاذ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق سام سنگ ہی وہ چِپ تیار کرتا ہے، جو آئی فون میں استعمال ہوتی ہے۔