جرمن حکومت افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی مدت کو سن 2022 تک توسیع کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کو اب پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
اشتہار
جرمن افواج فی الحال افغانستان میں رہ سکیں گی کیونکہ حکومت بدھ کے روز فوج کے وہاں قیام کی مدت میں دس ماہ کی توسیع کرنے پر راضی ہوگئی۔ حکومت کے اس فیصلے کو بہر حال پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ سے منظور کرانا ضروری ہوگا۔ سابقہ فیصلے کے تحت جرمن فوجیوں کی افغان میں قیام کی مدت مارچ کے اواخر میں ختم ہو رہی تھی۔
چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ کی جانب سے منظور کیے گئے نئے مسودے کے تحت جرمن فوج جنگ زدہ ملک میں 31جنوری 2022 تک رہ سکے گی۔
فیصلہ پیچیدہ صورت حال کے مدنظر
حکومت کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے بتایا کہ جرمن افواج کے افغانستان میں قیام میں توسیع کا فیصلہ وہاں کی پیچیدہ صورت حال کو مدنظرکیا گیا ہے تاکہ وہاں شکستہ سکیورٹی صورت حال اور خطرے کی حالت میں کسی طرح کی تبدیلی کی صورت میں ممکنہ ضروری کارروائی کرنے کے لیے وقت مل سکے۔
جرمنی کی گیارہ سو سے زیادہ فوج اس وقت افغانستان میں ہے جو امریکا کی وہاں موجود فوجیو ں کے بعد دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے۔
زائبرٹ نے کہا کہ نئے فیصلے کے بعد بھی افغانستان میں زیادہ سے زیادہ تیرہ سو جرمن فوج کی حد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
نیٹو کے فیصلے کا انتظار
جرمن کابینہ کا فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب ایک ہفتے قبل نیٹو نے کہا تھا کہ اس نے افغانستان میں نیٹو ممالک کے افواج کی موجودگی کے مستقبل کے بارے میں فی الحال کوئی ”حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔"
نیٹو کے سکریٹری جنرل جین اسٹولٹن برگ نے اعتراف کیا تھا کہ اس فوجی اتحاد کو افغانستان میں اپنا مشن جاری رکھنے میں ”بہت سے مسائل" کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن بھی طالبان کے ساتھ سن 2020 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے لیے یکم مئی کی تاریخ طے کی گئی تھی۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ افواج کے انخلاء کے حوالے سے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ فوجوں کی واپسی کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات سے منسلک کر دیا جانا چاہیے۔