1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کابینہ افغان مشن کی مدت میں توسیع پر رضامند

25 فروری 2021

جرمن حکومت افغانستان میں اپنے فوجی مشن کی مدت کو سن 2022 تک توسیع کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کو اب پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔

Symbolbild I Deutsche Soldaten in Afghanistan
تصویر: Maurizio Gambarini/dpa/picture alliance

جرمن افواج فی الحال افغانستان میں رہ سکیں گی کیونکہ حکومت بدھ کے روز فوج کے وہاں قیام کی مدت میں دس ماہ کی توسیع کرنے پر راضی ہوگئی۔ حکومت کے اس فیصلے کو بہر حال پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ سے منظور کرانا ضروری ہوگا۔ سابقہ فیصلے کے تحت جرمن فوجیوں کی افغان میں قیام کی مدت مارچ کے اواخر میں ختم ہو رہی تھی۔

چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ کی جانب سے منظور کیے گئے نئے مسودے کے تحت جرمن فوج جنگ زدہ ملک میں 31جنوری 2022 تک رہ سکے گی۔

فیصلہ پیچیدہ صورت حال کے مدنظر

حکومت کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے بتایا کہ جرمن افواج کے افغانستان میں قیام میں توسیع کا فیصلہ وہاں کی پیچیدہ صورت حال کو مدنظرکیا گیا ہے تاکہ وہاں شکستہ سکیورٹی صورت حال اور خطرے کی حالت میں کسی طرح کی تبدیلی کی صورت میں ممکنہ ضروری کارروائی کرنے کے لیے وقت مل سکے۔

جرمنی کی گیارہ سو سے زیادہ فوج اس وقت افغانستان میں ہے جو امریکا کی وہاں موجود فوجیو ں کے بعد دوسری سب سے زیادہ تعداد ہے۔

زائبرٹ نے کہا کہ نئے فیصلے کے بعد بھی افغانستان میں زیادہ سے زیادہ تیرہ سو جرمن فوج کی حد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

نیٹو کے فیصلے کا انتظار

جرمن کابینہ کا فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب ایک ہفتے قبل نیٹو نے کہا تھا کہ اس نے افغانستان میں نیٹو ممالک کے افواج کی موجودگی کے مستقبل کے بارے میں فی الحال کوئی ”حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔"

نیٹو کے سکریٹری جنرل جین اسٹولٹن برگ نے اعتراف کیا تھا کہ اس فوجی اتحاد کو افغانستان میں اپنا مشن جاری رکھنے میں ”بہت سے مسائل" کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن بھی طالبان کے ساتھ سن 2020 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے لیے یکم مئی کی تاریخ طے کی گئی تھی۔

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ افواج کے انخلاء کے حوالے سے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ فوجوں کی واپسی کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات سے منسلک کر دیا جانا چاہیے۔

ج ا / ص ز (اے ایف پی، اے پی)

کابل کی خودکفیل خواتین

03:51

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں