چین میں خریدی جانے والی ہر تیسری کار جرمن ساختہ ہوتی ہے۔ چینی کار مارکیٹ کو دنیا کی سب سے بڑی منڈی خیال کیا جاتا ہے۔ یہ کار انڈسٹری کے لیے بہت اہم مارکیٹ ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا کے دوران جرمن کار صنعت کے لیے چینی مارکیٹ ایک طرح سے 'لائف لائن‘ بنی ہوئی ہے۔ ایک ادارے سینٹر برئے آٹوموٹِو مینیجمنٹ (CAM) کے سربراہ اشٹیفان براٹسل کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جرمن کار سازوں کا قریب مکمل انحصار چین پر ہو کر رہ گیا ہے۔
کورونا اور کار مارکیٹیں
جرمن کار انڈسٹری پر نگاہ رکھنے والے اشٹیفان براٹسل کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس فوکس ویگن نے اپنی چالیس فیصد کاریں چین ہی میں فروخت کی تھیں۔ اس انحصار کی وجہ یہ ہے کہ امریکی اور یورپی کار منڈیوں کو کورونا وبا کی شدت کا سامنا ہے اور یہ ابھی تک سنبھل نہیں سکی ہیں۔ ان مارکیٹوں کو ابھی بھی کورونا وبا، احتیاطی ضوابط اور لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کا سامنا ہے۔ امریکی اور یورپی کار مارکیٹوں کو چین میں پھیلنے والی کورونا وبا سے زیادہ سنگین صورت حال نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اب وبا کی دوسری لہر نے حالات پر مزید گہری دھند کی چادر ڈال دی ہے اور اس سوال بارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وبا کا خاتمہ کب ہو گا؟
چینی کار مارکیٹ میں بحالی کا عمل
کورونا وبا کی گرفت سے چین نکل چکا ہے اور اب اس ملک کے مختلف شہروں کی کار منڈیوں میں بحالی کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیاں بھی بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ براٹسل کے مطابق ابھی تک کے اندازوں کے مطابق چین کی کار مارکیٹوں میں رواں برس کے اختتام پر جو ممکنہ گراوٹ ہو سکتی ہے، وہ پانچ فیصد ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقِ بعید اور دوسری ممالک کی کار مارکیٹوں کو اگر کم نقصان برداشت کرنا ہے تو بحالی کے سلسلے کو شروع کرنا ہو گا۔
دنیا کی جديد ترين کار فیکٹری
جرمن کارساز ادارے مرسیڈیز بینز نے اپنی جدید ترین’فیکٹری 56‘ کا افتتاح ستمبر کے آغاز میں کیا۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بینز نے اس فیکٹری میں کیا کچھ کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
مرسیڈیز نے جرمن شہر اشٹٹ گارٹ میں دنیا کے جدید ترین کار پلانٹ کا افتتاح ستمبر کے آغاز میں کیا۔ اس پر 730 ملین یورو کی لاگت آئی ہے۔ بینز فیکٹری میں ہال ‘‘No. 56’’ کی تیاری میں جتنا لوہا لگا، اس سے ایک اور آئیفل ٹاور کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ دو لاکھ 20 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر مشتمل اس ہال میں نیا پلانٹ لگایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
اس فیکٹری نے ریاست باڈن ورٹمبرگ کے وزیراعظم ونفریڈ کریشمان کو بھی حیران کر دیا جو اس پلانٹ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس فیکٹری کا 40 فیصد حصہ باغیچوں اور پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس فیکٹری کے لیے درکار سالانہ بجلی کی کھپت کا 30 فیصد حصہ شمسی توانائی سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
مرسیڈیز بینز اپنی فیکٹریوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 2039ء تک صفر کی سطح پر لانے کے لیے دو بلین اور 100 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ یہ اسمارٹ فیکٹری، دیگر فیکٹریوں کے مقابلے میں 25 فیصد کم بجلی استعمال کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
دنیا کی یہ پہلی فیکٹری ہے جہاں پروڈکشن لائن سسٹم مکمل طور پر ڈیجیٹلائزڈ ہے اور فائیو جی نیٹ ورک پر کام کرتا ہے۔ ایرکسن کمپنی اور ٹیلی کام ادارے O2 نے مل کر اسے مرسیڈیز بینز کے لیے تیار کیا ہے۔ یہاں کام کرنے والے تمام لوگ، آلات اور ڈیوائسز اس سسٹم سے جڑی ہیں اور آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
مکمل ڈیجیٹل ’فیکٹری 56‘ میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا گیا ہے جن میں انٹرنیٹ آف تھنگز، مصنوعی ذہانت، بِگ ڈیٹا الگوردھمز، اسمارٹ ڈیوائسز، ورچوئل ریئیلٹی اور آگمینٹڈ ریئیلیٹی بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
یہ جدید ’’فیکٹری 56‘‘ انٹرنیٹ پلیٹ فارم ‘‘MO360’’ کا استعمال کرتی ہے جو خاص طور پر بینز کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تمام تر معلومات اسکرینز پر ہی دستیاب ہوتی ہے جس کے باعث سالانہ 10 ٹن کاغذ کی بچت ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
مرسیڈیز بینز کا 360 ڈگری نیٹ ورک سسٹم فیکٹری تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں پروڈکشن کے علاوہ لاجسٹک چین بھی شامل ہے جو ان دو ہزار کمپنیوں پر مشتمل ہیں جو مرسیڈیز بنیز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
‘‘RFID’’ سسٹم (ریڈیو ویو ریکگنیشن سسٹم) کے ذریعے اسمبلی ہال میں موجود کاروں کے پارٹس کے نمبر اور ان کی موجودگی کا مقام اس سسٹم میں موجود رہتا ہے جس کی وجہ سے مختلف پارٹس کے لیے الگ سے آرڈر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
سب سے بڑا انقلاب پروڈکشن لائن میں لایا گیا ہے اور اسی سبب انتہائی کم وقت میں اس میں مرسیڈیز گاڑیوں کے کسی بھی ماڈل کی بہت کم عرصے میں پروڈکشن شروع کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
’’فیکٹری 56‘‘ کی جدید ترین پروڈکشن لائن کی بدولت گاڑیوں کی تیاری کی لاگت میں 25 فیصد تک کمی ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
دیگر فیکٹریوں کی نسبت ’’فیکٹری 56‘‘ میں کوئی شور نہیں ہے اور یہاں خاموشی اور سکون ہے۔ ایک اور چیز جو آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے وہ یہاں کی صفائی ہے جو کسی ہسپتال کے آپریشن تھیئٹر کی سطح کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
’’فیکٹری 56‘‘ کی پروڈکشن لائن مرسیڈیز بینز کے دنیا بھر میں موجود دیگر 30 پلانٹس کے لیے بھی ایک ماڈل کا کام کرے گی اور انہیں بھی اسی کی طرز پر جدید بنایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd Weissbrod
12 تصاویر1 | 12
کار انڈسٹری اور چینی منڈی
اشٹیفان براٹسل کا کہنا ہے کہ جرمن کار انڈسٹری کا مارکیٹوں پر انحصار یک طرفہ نہیں بلکہ اس کے دو رخ ہیں۔ ان کے مطابق ایک طرف چینی کار مارکیٹ کسی حد تک جرمن آٹو انڈسٹری کو سہارا دے رہی ہے تو دوسری جانب دوسرے ممالک میں ان مارکیٹوں میں ہلکی پھلکی ہلچل بھی مثبت قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ ہلچل گلوبل کار انڈسٹری میں دیکھی جا رہی ہے۔ ایک اور ماہر فرڈیننڈ ڈوڈنہوفر کا کہنا ہے کہ چین دنیا کی کار انڈسٹری کو چلانے والا انجن ہے اور اس میں عدم تحریک شدید مالی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ڈوڈنہوفر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تناظر میں جرمن کار انڈسٹری کے لیے چین کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
بلیک میلنگ کا پہلو
براٹسل کا خیال ہے کہ جرمن کار انڈسٹری کا چینی منڈیوں پر طویل المدتی انحصار کسی بھی طور پر خوش آئند نہیں ہے۔ مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کار ساز کا کُلی انحصار کسی ایک ملک کی مارکیٹ پر ہو کر رہ جائے تو وہ ملک کسی بھی وقت کار ساز ادارے کو اپنے مفادات کے تابع لا کر بلیک میلنگ کی شروعات کر سکتا ہے۔ انہوں نے مسلسل ایک ملک پر تکیہ کرنے کو کاروباری اصولوں کے منافی خیال کیا ہے۔ براٹسل کے مطابق یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ چین کی پیداواری صلاحیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور مستقبل میں بھی وہاں کاروں کی طلب کم ہونے کا امکان کم ہے۔ یہی مسلسل طلب ہی جرمن کار میکرز کو پیچھے ہٹنے نہیں دے رہی۔
جرمن کار انڈسٹری کے لیے ریلیف
رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں جرمن کار انڈسٹری کو سکھ کا سانس ملا۔ سکھ کا سانس لینے والوں میں خاص طور پر آؤڈی، بی ایم ڈبلیو اور ڈائملر کے کارپوریٹ ہیڈکوارٹرز بھی شامل ہیں۔ ان کاروں کی منفعت کا گراف بلند ہوتا دیکھا گیا۔ دوسری سہ ماہی میں ان کار ساز اداروں کو بیس فیصد کے قریب نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بی ایم ڈبلیو کو دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں تیسری سہ ماہی میں 8.6 فیصد منافع ملا۔ آؤڈی اور ڈائملر تو فوکس ویگن کی ذیلی کمپنیاں ہیں اور ان کے مالی منافع میں بھی بہتری دیکھی گئی۔