جرمنی میں آج جمعہ کے دن کاریں بنانے والے بڑے اداروں میں ہڑتال شروع ہو گئی ہے۔ ان اداروں کے ہزاروں ملازمین موجودہ تنخواہوں کی شرح پر عدم اطمینان رکھتے ہیں۔
اشتہار
جن کار ساز اداروں میں ورکرز نے کام چھوڑ کر اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کی ہے، ان میں بی ایم ڈبلیو، ڈائملر، آؤڈی اور پورشے شامل ہیں۔ اس ہڑتال میں دھات کی صنعت اور الیکٹرانک انڈسٹری کے ہزاروں ملازمین بھی شامل ہیں۔
جرمن شہر میونخ میں واقع بی ایم ڈبلیو کے مرکزی کارخانے میں سات ہزار ملازمین ہڑتال میں شریک ہیں۔ بی ایم ڈبلیو کا کاریں بنانے والا پلانٹ ڈِنگولفنگ (Dingolfing) میں ہے اور وہاں 13 ہزار 700 ملازمین اس بڑے صنعتی ایکشن میں شریک ہوئے۔
ہڑتال میں شریک ایک ورکر رابرٹ گراشی کا کہنا ہے کہ اب اس ہڑتال کی وجہ سے جمعہ کے دن سولہ سو کاریں پوری طرح تیار نہیں کی جا سکیں گی۔ بی ایم ڈبلیو کے ڈنگولفنگ پلانٹ پر روزانہ کی بنیاد پر اتنی ہی کاریں مکمل کر کے کارخانے سے باہر نکالی جاتی ہیں۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب میں ہڑتال کی وجہ سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین اپنی اپنی شفٹوں پر نہیں پہنچے۔ جرمن شہر اشٹٹ گارٹ میں نائٹ شفٹ نہ کرنے والے ورکروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔ اشٹٹ گارٹ کو مرسیڈیز بنانے والی ڈائملر کمپنی کا شہر قرار دیا جاتا ہے۔
اسی طرح جرمن صوبے باویریا میں آؤڈی کے دو کارخانوں میں بھی کام کرنے والے ملازمین جمعے کی صبح تک نہیں پہنچے۔ ان فیکٹریوں میں ملازمین کی ہڑتال کی توثیق تو مقامی یونین نے کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آؤڈی کی فیکٹری میں کتنے ملازمین ہڑتال پر ہیں۔
ہڑتال کا سلسلہ گزشتہ دو ایام سے جاری ہے۔ مختلف فیکٹریوں میں دو لاکھ کے قریب ورکرز ہڑتال کر چکے ہیں اور آج جمعے کے دن ہڑتال کرنے والے ملازمین کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے۔
ہڑتال کا اعلان کرنے والی یونین اجرتوں میں چھ فیصد اضافے کا مطالبہ رکھتی ہے۔ یونین کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اگلے دو برسوں میں ملازمین کے لیے ایک ہفتے کے دوران کام کرنے کے گھنٹے کم کر کے اٹھائیس کر دیے جائیں۔
جرمنی میں ہڑتال، روزمرہ زندگی متاثر
تصویر: picture-alliance/dpa
فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی عملے کی طرف سے جعمرات کے دن کی جانے والی ہڑتال کے باعث وہاں متعدد پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔ جس کی وجہ سے مسافروں کو پریشانی بھی ہوئی۔ ایک مسافر تھکن کی حالت میں ایئر پورٹ کے مسافر لاؤنج میں بیٹھا، ہڑتال ختم ہونے کا منتظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے ہڑتالیوں نے جمعرات کے دن دوپہر ایک بجے تک کام نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فرینکفرٹ ایئر پورٹ میں سکیورٹی چیک اِن گارڈز کے علاوہ ڈرائیورز، لوڈرز اور دیگر عملے نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں کے مطابق فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر کل پندرہ سو افراد نے ہڑتال میں شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جمعرات کو جرمنی کے سات ہوائی اڈوں پر ہڑتال کی گئی۔ اگرچہ سب سے زیادہ متاثر فرینکفرٹ اور میونخ کے ہوائی اڈے ہوئے لیکن ہیمبرگ، ہینوور، ڈُسلڈورف، اشٹٹ گارٹ اور کولون/ بون ایئر پورٹس پر بھی معمول کی پروازیں متاثر ہوئیں۔
تصویر: Reuters
جمعرات کے دن اس ہڑتال کے موقع پر کولون/ بون ایئر پورٹ خاصا خالی خالی دکھائی دیا کیونکہ بہت سے مسافروں نے اس دن ہوائی اڈے کا رخ ہی نہ کیا۔ بہت سے مسافروں نے اس ہڑتال کے اثرات سے بچنے کے لیے یا تو ٹرین کا استعمال کیا یا پھر اپنی گاڑیاں استعمال کیں۔ کچھ مسافروں نے تو اپنے سفر کے منصوبوں کو منسوخ بھی کر دیا۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین VerDi نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حکومتی وفد کے ساتھ آئندہ ہفتے شروع ہونے والے مذاکرات میں وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ویردی کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین بھی اقتصادی ترقی سے اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/N. Steudel
مزدور یونین تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت وفاقی اور میونسپل پبلک سیکٹر میں خدمات سرانجام دینے والے تقریبا 2.1 ملین ملازمین کی تنخواہوں میں 3.5 فیصد کا اضافہ کرے اور انہیں ماہانہ سو یورو کا بونس بھی دے۔
تصویر: DW/N. Steudel
کولون بون ایئر پورٹ کےترجمان والٹر رؤمر سرکاری ملازمین اور حکومت کے مابین پیدا ہونے والے لیبر تنازعات کے حل کے ماہرتصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور میں ہڑتالوں سے اب لوگ ویسے متاثر نہیں ہوتے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
تصویر: DW/N. Steudel
فرانس کے دو تاجر جعمرات کی دوپہر تک واپس پیرس پہنچنا چاہتے تھے۔ تاہم فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی ایک پرواز کی منسوخی کے بعد وہ وہیں پھنس کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں ہونے والی ہڑتالوں کی وجہ سے یہ بدنظمی ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی میں جاری ہڑتالوں کے سلسلے سے صرف ایئر پورٹس ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ متعدد شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ سے وابستہ اہلکاروں نے بھی کام بند کر دیا۔ ان میں بسوں اور مقامی سطح پر چلنے والی ٹرینوں کے ڈرائیورز بھی شامل تھے۔ یوں بون سمیت کئی شہروں کے رہائشی بھی اس ہڑتال سے شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ہڑتال کی گئی۔ تاہم وہاں ہڑتال کچھ مختلف تھی کیونکہ برلن میں کوڑا کرکٹ اٹھانے والے عملے نے کام کرنا بند کر دیا۔ یوں شہر کے رہائشیوں نے اس ’وارننگ ہڑتال‘ کے دوران شہر کی صفائی میں خود حصہ لیا۔ اگر ٹریڈ یونین تنظیموں اور حکومتی وفود کے مابین جاری مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو صورتحال ایک مرتبہ پھر بگڑ سکتی ہے۔