نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور فلسفی امرتیا سین کو جرمن بُک انڈسٹری کے معتبر ترین امن انعام سے نوازا گیا ہے۔ 86سالہ پروفیسر کے مطالعے اور تجزیے دنیا بھر میں سماجی ناانصافی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اشتہار
جرمن کتابی صنعت کے بورڈ نے بدھ سترہ جون کو اعلان کیا ہے کہ اس سال کے ’جرمن امن انعام‘ کے حقدار بھارتی معیشت دان اور فلسفی امرتیا سین قرار پائے ہیں۔ اس بورڈ کے بیان کے مطابق چھیاسی سالہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور نوبل انعام یافتہ امرتیا سین کو کئی دہائیوں تک ’عالمی انصاف‘ کے امور پر غور و فکر کرنے کے احترامیں امن انعام سے نوازا جا رہا ہے۔
بورڈ نے کہا کہ پروفیسر سین کا مطالعہ دنیا بھر میں سماجی ناانصافی کے خلاف جنگ میں ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ قابل اطلاق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی نیشنل میڈلز امرتیا سین اور ایل پچینو کے نام
امن انعام کی تقریب تقسیم کا اہتمام روایتی طور پر امسالہ فرینکفرٹ بک فیئر کے اختتامی دن یعنی اٹھارہ اکتوبر کو کیا جاتا ہے۔ یہ پروقار تقریب ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی جاتی ہے۔ جرمن بک ٹریڈ کا پیس پرائز سن 1950 سے ہر سال دیا جاتا ہے۔ انعام کے ساتھ 25000 یورو کی نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔
قدیم اور جدید، دنیا کے سب سے خوب صورت کتب خانے
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ کہیں گنبدوں اور کہیں ناقابل فہم اڑن کھٹولوں کی اشکال جیسے یہ کتب خانے آج کتابوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
راکھ سے اٹھتے ہوئے
شہزادی آنا امالیا لائبریری وائمر کا یہ نام 1991 میں رکھا گیا۔ اس سے قبل تین سو سال تک اس کا نام شاہی لائبریری تھا۔ اس کے مشہور زمانہ روکوکو ہال نامی عمارت آتش زدگی کا شکار ہو کر خاکستر ہو گئی تھی۔ 24 اکتوبر 2007 کو تاہم اسے تعمیر نو اور مرمت کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
فٹ بال کا میدان یا کتب خانہ؟
فکر مت کیجیے، اگر آپ کے پاس اسٹوڈنٹ کارڈ نہیں ہے، تب بھی ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی یہ لائبریری، آپ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ عمارت کی ڈھلوانی طرز پر بنائی گئی چھت پر گھاس اگائی گئی ہے۔ 42 میٹر بلند میں چار منزلیں ہیں اور ہر منزل کتابوں سے بھری ہے۔
تصویر: Nicholas Kane/Arcaid/picture alliance
گلِ لالہ کی لکڑی اور آبنوس
برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ نے پرتگال کے کوئنبرا کے علاقہ میں بِبلوٹیکا ژوآنینا کو سن 2013 میں دنیا کی سب سے بہترین لائبریریوں کی فہرست میں رکھا تھا۔ یہ کتب خانہ پرتگال کے بادشاہ جان پنجم کے نام سے موسوم ہے، جنہوں نے اسے تعمیر کیا۔ اس لائبریری میں کتابوں کے تمام شیلف گلِ لالہ اور آبنوس کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/H. Champollion
روایت اور جدت کا امتزاج
دو ہزار برس قبل آگ کی نذر ہو جانے سے قبل اسکندریہ کا یہ کتب خانہ پوری دنیا میں مشہور تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کتب خانے میں پوری انسانیت کی مجموعی دانش دھری ہے۔ اسکندریہ کی یہ نئی لائبریری، اسی نسبت سے سن 2002ء میں عوام کے لیے کھولی گئی۔ اس پر دو سو بیس ملین ڈالر لاگت آئی۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
حنوط شدہ لاشوں کے درمیان
سینٹ گالیں، سوئٹزرلینڈ کی اس ایبے لائبریری میں چند حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں، جو قریب تیرہ سو برس پرانی ہیں۔ یہاں آنے والے کتابوں کے بیچوں بیچ ان کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ یورپ کی قدیم ترین نقشے والی عمارات میں سے ایک ہے۔ بوشیرزال یا بک ہال کو یونیسکو نے سن 1983 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Stuart Dee/robertharding
صدر نے بچایا
کانگریس کی اس لائبریری ضرور جائیے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس لائبریری کی بنیاد 1800 میں رکھی گئی تھی مگر صرف 14 برس بعد اسے برطانیہ نے جلا ڈالا تھا۔ تھومس جیفرسن، جو امریکا کے تیسرے صدر تھے، نے اپنی ذاتی ملکیت کی کوئی ساڑھے چھ ہزار کتب فروخت کر کے اس کے لیے 24 ہزار ڈالر کا سرمایہ جمع کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/H. Khandani
خیالِ بلوط
ڈبلن میں دو منزلہ عمارت اولڈ ٹرنیٹی کالج کی 64 میٹر لمبے اور 12 میٹر چوڑے کمرے پر مشتمل لائبریری ہے۔ یہ جگہ کبھی اتنی دل کش نہیں تھی، جیسی اب ہے۔ سن 1885 میں اس کی پلاسٹر والی چھت ہٹا کر بلوچ کی لکڑی سے اسے دوبارہ آراستہ کیا گیا۔
تصویر: Imago/imagebroker
چین میں سب کچھ بڑا ہے
چین کی نیشنل لائبریری میں تین کروڑ کتابیں ہیں۔ چین کا یہ کتب خانہ دنیا کے سات سب سے بڑے کتاب گھروں میں سے ایک ہے۔ اسے 1809 میں مرکزی کتب خانے کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے بیجنگ لائبریری رکھ دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Zhao
8 تصاویر1 | 8
اس اعزاز کا مقصد ایسی شخصیات کی عزت افزائی کرنا ہے جو ’ادب ، سائنس اور فن کے شعبوں میں اپنی خدمات کے ذریعے بنیادی طور پر امن کے نظریہ کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔‘ گزشتہ برس برازیل کے ایک معروف فوٹوگرافر سیباستیو سیلگادو اس انعام کے حقدار قرار پائے تھے۔