جرمن کتابی صنعت کا امن انعام زمبابوے کی ادیبہ کو دے دیا گیا
24 اکتوبر 2021
جرمنی کی کتابی صنعت کا امسالہ امن انعام آج اتوار چوبیس اکتوبر کے روز زمبابوے کی معروف ادیبہ سِتسی دانگاریمبوآ کو دے دیا گیا۔ انہیں یہ انعام فرینکفرٹ میں جاری دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے کے دوران دیا گیا۔
اشتہار
اس وقت باسٹھ سالہ دانگاریبموآ ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فلم میکر بھی ہیں۔ انہیں اس انعام کے ساتھ پچیس ہزار یوروکی نقد رقم بھی دی گئی۔ یہ انعام 1950ء سے ہر سال دیا جاتا ہے۔
اس انعام کی حق دار شخصیت کا انتخاب کرنے والی جیوری کے مطابق سِتسی دانگاریمبوآ (Tsitsi Dangarembga) نہ صرف اپنے ملک زمبابوے کے اہم ترین ادیبوں اور فنکاروں میں سے ایک ہیں بلکہ ان کا شمار عہد حاضر کے سرکردہ افریقی ادیبوں میں بھی ہوتا ہے۔
جیوری کے مطابق، ''دانگاریمبوآ کی تخلیقات نہ صرف اہم سماجی اور اخلاقی تنازعات کی نشاندہی کرتی ہیں، بلکہ وہ اپنے علاقائی حوالوں سے بالا تر ہو کر عالمگیر سطح پر انصاف اور سماجی بہتری سے متعلق سوالات کو بھی جنم دیتی ہیں۔‘‘
چودہ فروری 1959 کو ماضی میں رہوڈیشیا اور اب زمبابوے کہلانے والے افریقی ملک کے شہر مُوتوکو میں پیدا ہونے والی دانگاریمبوآ کا اولین ناول Nervous Conditions 1988ء میں شائع ہوا تھا۔
یہ ان کی تین ایسی کتابوں کے سلسلے کی پہلی کتاب تھا، جن میں سوانحی پہلو نمایاں ہے۔ ان کی اس سلسلے کی دوسری کتاب The Book of Not تھی جو 2006ء میں جبکہ تیسری کتاب This Mournable Body سن 2018ء میں شائع ہوئی تھی۔
زمبابوے کی اس مصنفہ کو جرمن بک انڈسٹری کا امن انعام دینے کی تقریب ہر سال کی طرح فرینکفرٹ شہر کے سینٹ پال چرچ میں منعقد ہوئی۔ یہ انعام وصول کرنے کے بعد اپنے خطاب میں سِتسی دانگاریمبوآ نے کہا کہ دنیا کو اس وقت ایک نئی روشن خیالی اور بصیرت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بصیرت ہی وہ بنیادی تبدیلی ہو سکتی ہے، جو ان نسل پرستانہ سماجی ڈھانچوں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے، جن کا آج بھی ان کے اپنے وطن اور ساری دنیا کو کسی نہ کسی صورت میں سامنا ہے۔
دانگاریمبوآ نے اپنے خطاب میں اپنے وطن زمبابوے کے نوآبادیاتی ماضی کا بھی کھل کر ذکر کیا اور وہاں سفید فام نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے مقامی سیاہ فام آبادی پر کیے جانے والے طرح طرح کے مظالم کا بھی۔ زمبابوے کے مقامی باشندوں پر یہ مظالم 1980ء میں اس ملک کی آزادی تک کیے جاتے رہے تھے۔
م م / ب ج (ڈی پی اے، اے پی)
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔