1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

’مزید سبسڈی کے لیے پیسے نہیں ہیں‘، جرمن وزیر خزانہ

15 جنوری 2024

برلن میں کسانوں کے بہت بڑے مظاہرے کے سبب کاروبار زندگی بُری طرح مفلوج ہو کر رہ گیا۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر قریب دس ہزار کسان ٹرکوں اور ٹریکٹروں سمیت سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ قریب ایک ہفتے سے کسان مظاہرے کر رہے ہیں۔

Bauernproteste in ganz Deutschland
تصویر: Sean Gallup/Getty Images

 

جرمن کسانوں  کی طرف سے ٹیکسوں میں کمی اور سبسڈی میں اضافے کا مطالبہ زور پکڑتے پکڑتے برلن کے قلب میں عام زندگی کو مفلوج کر دینے والے غیر معمولی احتجاجی  مظاہروں کا سبب بن گیا۔ برلن کے مشہور زمانہ تاریخی مقام برانڈنبرگ گیٹ پر دس ہزار کا مجمع اور کسانوں کے ٹریکٹر اور ٹرکوں نے ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔ دریں اثناء جرمن وزیر خزانہ نے سخت سردی میں برانڈنبرگ گیٹ کے سامنے بننے ہوئے اسٹیج پر چڑھ کر کسانوں سے خطاب کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ''میں آپ کو وفاق سے مزید ریاستی امداد کا وعدہ نہیں کر سکتا لیکن ہم آپ سب مل کر آپ سب کے لیے  لڑ سکتے ہیں تاکہ آپ کو اپنے کاموں کے لیے زیادہ آزادی اور احترام سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر ہو۔‘‘

حکومتی اتحاد پر دباؤ

جرمنی میں کسانوں کی طرف سے جاری احتجاج اور بڑے مظاہروں کے ذریعے جرمن چانسلر اولاف شولس کے حکومتی اتحاد پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حکومتی اتحاد بجٹ کے نقائص دور کرنے اور دائیں بازو کے گروہوں کو تسلی دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کھیتوں میں کاشت کاری کرتے ایگریکلچرل روبوٹ

02:13

This browser does not support the video element.

 

حکومت کی طرف سے زرعی ڈیزل پر ٹیکس کا وقفہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے کسانوں کی طرف سے احتجاج میں شدت آگئی ہے۔ وفاقی حکومت کو  2024ء کے بجٹ کا توازن برقرار رکھنے کے لیے آئینی عدالت کے اس فیصلے کے تحت اپنے اخراجات کے منصوبوں پر نظر ثانی کرنا پڑا جو گزشتہ نومبر میں آئینی عدالت کے فیصلے کی شکل میں سامنے آیا تھا۔

برلن میں برانڈنبرگ گیٹ کے سامنے کسانوں کا احتجاجتصویر: Nadja Wohlleben/REUTERS

حکومت پہلے ہی کہہ چُکی ہے کہ وہ نئی زرعی گاڑیوں پر ٹیکس برقرار رکھے گی جبکہ زرعی ڈیزل سبسڈی کا خاتمہ آئندہ کئی سالوں پر محیط منصوبے کے تحت ہوگا۔

لیکن اپوزیشن کی حمایت کے ساتھ قدامت پسندوں اور انتہائی دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔  کسانوں کی یونین کے سربراہ یوآخم رُکویڈ نے کہا، ''میں ہر اس سیاست دان کا احترام کرتا ہوں، جو ہمارے پاس آنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

کسانوں کی یونین کے سربراہ نے جرمن وزیر خزانہ کے خطاب کے دوران کسانوں کی طرف سے بہت زیادہ شور اور خلل کو روکنے کے لیے وزیر خزانہ سے مائیکرو فون لے کر کسانوں سے خاموش رہنے اور وزیر خزانہ کی تقریر سننے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ''وزیر خزانہ یہاں موجود ہیں اور انہیں یہاں سے بھگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

 

جرمن وزیر خزان اور کسانوں کی یونین کے سربراہ تصویر: Monika Skolimowska/dpa/picture alliance

حکومتی حلقے میں تقسیم

حکمران جماعتیں اس بات پر منقسم ہیں کہ کسانوں کے مطالبات کس طرح بہترین طریقے سے پورے کیے جائیں۔ گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر زراعت چم اُزدیمیر نے نرم دلی اور انسانیت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مویشی پالنے کے لیے مالی اعانت اور انعامات کی  تجویز پیش کی جبکہ کچھ سوشل ڈیموکریٹس زیادہ پیداوار کی قیمتیں پیش کرنا چاہتے ہیں، اور وزیر مالیات لنڈنر کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان 'ایڈمنسٹریٹیو اوور ہیڈز‘  کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ برلن میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے سبب کئی بسوں اور ٹرام لائنوں کو بند کر دیا گیا جبکہ مظاہرے کے دوران لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے تقریباً 1,300 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔

 

ک م/ ع ب (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں