جرمن کمپنی پورشے کا ڈیزل گاڑیوں کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ
23 ستمبر 2018
لگژری سپورٹس کاریں بنانے والی جرمن کمپنی پورشے نے اپنی ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار بند کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پورشے عالمی سطح پر مشہور جرمنی کی کار ساز صنعت میں ایسا فیصلہ کرنے والی پہلی کمپنی ہے۔
اشتہار
گاڑیاں تیار کرنے والی ایک کمپنی کے طور پر پورشے جرمنی ہی کے ایک بہت بڑےصنعتی گروپ فوکس ویگن کی ملکیت ہے، جو پورے یورپ کا سب سے بڑا کار ساز ادارہ اور کئی آٹوموبائل برانڈز کا مالک بھی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق پورشے نے ڈیزل انجن والی گاڑیوں کی تیاری بند کرنے کا فیصلہ اپنی مادر کمپنی کی وجہ سے کیا ہے۔
فوکس ویگن کو دنیا کے چند دیگر بڑے کار ساز اداروں کی طرح اس اسکینڈل کا سامنا ہے کہ اس نے برس ہا برس تک اپنی ڈیزل گاڑیوں میں ایسے ترمیم شدہ سافٹ ویئر نصب کیے، جو ان کے انجنوں سے خارج ہونے والے ماحول دشمن مادوں اور زہریلی گیسوں کی شرح اصل سے بہت کم بتاتے تھے۔
اس وجہ سے اپنی گاڑیوں میں ایسے سافٹ ویئر کی موجودگی کی تصدیق کے بعد سے فوکس ویگن کی انتظامیہ اب تک کئی لاکھ گاڑیاں اپنی اس دانستہ غلطی کے ازالے کے لیے واپس بلا چکی ہے۔ یوں اس بہت معتبر اور مؤقر جرمن کار ساز ادارے کو جرمانوں یا اضافی اخراجات کی مد میں اربوں یورو کی رقوم سے ہاتھ دھونا پڑ چکے ہیں۔
کار ساز کمپنی پورشے کے 70 سال
کئی دہائیوں سے تیز رفتار کاریں بنانے والی جرمن کمپنی پورشے کی گاڑیاں بے حد پسندیدگی کی سند رکھتی ہیں۔ کاروں کے اس برانڈ کے 70 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW
اپنی نوعیت کی اولین:
8جون 1948ء میں پورشے کی پہلی ڈئزاین کردہ گاڑی 356 No. 1 Roadster کو چلانے کا پرمٹ ملا۔ یہ پہلی گاڑی تھی جس پر پورشے کا نام آویزاں تھا۔ یہ کار جرمنی کے شہر اشٹٹ گاڈ کے پورشےمیوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/b. Hanselmann
356 کے موجد:
پورشے کی پہلی گاڑی فریڈینینڈ اینٹان ارنسٹ پورشے نے ڈیزائین کی تھی۔ پانچ دہائیوں تک وہ پورشے سے بطور سی ای او اور چئیرمین منسلک رہے ۔ ان کے والد فریڈینینڈ پورشے بھی کاریں بنانے کے کام سے وابستہ تھے اور فاکس ویگن کے لیے کاریں بناتے تھے۔
تصویر: Porsche
ابتدائی ناکامی
پورشے کو عوام کے سامنے دوسری عالمی جنگ کے چند برس بعد ہی فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ تاہم اس وقت ان مشکال حالات میں لوگوں کا رجحان اسپورٹس گاڑیوں کی خرید کی جانب نہیں تھا۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ہی پورشے برانڈ اس دعویٰ کے ساتھ خود کو منوانے میں کامیاب ہوا کہ ’’ ہم وہ گاڑیاں بناتے ہیں جس کی ضرورت کسی کو نہیں لیکن چاہ سب کو ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Porsche Schweiz AG
دنیا بھر میں مقبولیت
پورشے کو تقریباﹰ ایک ملین اسپورٹس کاریں فروخت کرنے میں نصف صدی کا عرصہ لگا۔ تاہم اس کے بعد اس کی فروخت میں اضافہ ہوا اور صرف پانچ برسوں میں ہی اس برانڈ نے اپنی ایک ملین گاڑیاں فروخت کی۔ صرف گزشتہ برس کواٹر ملین گاڑیاں فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: picture alliance
ڈیوڈ بمقابلہ گولائیتھ
سن دو ہزار کے وسط میں چھوٹی گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے جرمنی کے ایک بڑے برانڈ فاکس ویگن کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس وقت پورشے ایس ای نامی کمپنی کے پاس فاکس ویگن کے ایک بڑے حصے کی ملکیت ہے جبکہ پورشے کارپوریشن جو گاڑیاں بناتی ہے، اسے فاکس ویگن گروپ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
تصویر: AP
پورشے کے لیے مشکلات
کئی صدیوں سے پورشے گاڑیاں ڈیزل انجنوں پر انحصار کرتی آئی ہیں۔ تاہم SUVs کی مقبولیت بڑھی تو انحصار کا یہ انداز کچھ تبدیل ہو گیا۔ SUVs کے ڈیزل ماڈلز میں فاکس ویگن کے برانڈ Audi کا انجن لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
الیکٹرک گاڑیاں
پورشے کی بجلی سے چلنے والی پہلی گاڑی مارکیٹ میں سن 2019ء میں معتارف کرائی جائے گی۔ اس گاڑی کو بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ پانچ سو کلو میٹر یا 310 میل تک ایک چارج میں سفر کر سکیں گی۔
تصویر: Porsche
ریکارڈ فروخت
اندازہ لگایا گیا ہے کہ فروخت کے اعتبار سے 2018ء پورشے کے لیے ریکارڈ توڑ سال ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Porsche
8 تصاویر1 | 8
پورشے نے اپنی گاڑیوں میں تنصیب کے لیے ماضی میں ان کے ڈیزل انجن کبھی بھی خود نہیں بنائے تھے اور نہ ہی ان پر کوئی ریسرچ کی تھی۔ لیکن فوکس ویگن کے ڈیزل انجن اسکینڈل کی وجہ سے اس کمپنی کو بھی جو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، اس سے کہیں زیادہ اس ادارے کے لیے وہ شرمندگی تکلیف دہ تھی، جس سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ فوکس ویگن کو ایک بہت بڑے کار ساز گروپ کے طور پر اسکینڈل کا سامنا تھا۔
ڈیزل پورشے کے مالکان کو یقین دہانی
پورشے کے سربراہ اولیور بلُومے نے جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ اتوار تئیس ستمبر کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ڈیزل اسکینڈل کی وجہ سے ہمیں بھی بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے اب ہم ڈیزل انجن والی گاڑیاں تیار ہی نہیں کریں گے اور چند ہی ماہ بعد ہم اپنے گاہکوں سے ایسی نئی گاڑیوں کے آرڈر لینا بھی بند کر دیں گے۔‘‘
پورشے نے ڈیزل انجن والی گاڑیاں تیار کرنے کا کام قریب ایک دہائی تک کیا۔ کمپنی کے سربراہ کے مطابق ڈیزل گاڑیوں کی تیاری بند کر دینے کے بعد بھی یہ ادارہ ان صارفین کو دیکھ بھال، مرمت اور تکنیکی تعاون کی سہولیات فراہم کرتا رہے گا، جنہوں نے پورشے ڈیزل گاڑیاں خرید رکھی ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/P. Grimm
16 تصاویر1 | 16
سپورٹس اور الیکٹرک کاروں پر زیادہ توجہ
اپنے اس انٹرویو میں اولیور بلُومے نے کہا کہ پورشے نے مستقبل میں اپنی صنعتی پیداوار میں ایک بار پھر اپنی اس حیثیت پر زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو عشروں تک اس کی پہچان رہی ہے۔ ان کی اس سے مراد ایسی انتہائی تیز رفتار اور قابل اعتماد موٹر گاڑیوں کی تیاری تھی، جنہیں صاحب حیثیت صارفین لگژری سپورٹس کاروں کے طور پر بہت پسند کرتے ہیں۔
پورشے کے سربراہ کے مطابق ان کا ادارہ آئندہ ڈیزل انجن والی گاڑیوں کے بجائے پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں، پٹرول کے ساتھ ساتھ بجلی سے چلنے والی یعنی ہائبرڈ کاریں اور خالصتاﹰ الیکٹرک گاڑیاں بنانے پر زیادہ توجہ دے گا، جو اپنے نام اور ساکھ کے حوالے سے روایتی پورشے گاڑیوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوں گی۔
اولیور بلُومے کے مطابق 2019ء سے پورشے ایسے گاڑیاں تیار کرنا بھی شروع کر دے گا، جو سو فیصد الیکٹرک کاریں ہوں گی اور جنہیں ان کے مالکان اپنے گھروں، کام کی جگہوں یا چارجنگ اسٹیشنوں پر ری چارج کر سکیں گے۔
م م / ع ح / روئٹرز
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔