جرمن کیئر سینٹرز، غیر ملکی اور مقامی ماہرین میں کشیدگی
2 مارچ 2019
ایک نئے مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمنی میں کیئر سینٹرز کے تربیت یافتہ ورکرز اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کے مابین غلط فہمیاں ان کے آپسی تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں ہسپتال اور بزرگ افراد کے کیئر سینٹرز میں کام کرنے والے عملے میں غیر ملکی افراد کی بھرتیاں ڈرامائی طور پر زیادہ ہو گئی ہے۔ ان غیر ملکیوں کی تربیت اپنے اپنے ممالک میں ہوئی ہیں جبکہ جرمنی میں ڈے کیئر کا نظام کچھ مختلف ہے۔
ایک تازہ مطالعے کے نتائج کے مطابق جرمن زبان پر مکمل مہارت نہ ہونے اور کام کے مختلف طریقہ کار کے باعث جرمنی میں تربیت یافتہ عملے اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کے مابین کشیدگی نوٹ کی گئی ہے۔
ہنس بوکلر فاؤنڈیشن کے مطابق جرمنی میں بزرگ افراد کی نگہداشت کے لیے بنائے گئے مراکز کے عملے میں دو گروہ بن چکے ہیں۔ ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں، جنہوں نے جرمنی میں تربیت حاصل کی ہے اور دوسرے میں وہ جو حال ہی میں غیر ممالک سے آئے ہیں۔
ہنس بوکلر فاؤنڈیشن کی طرف سے جمعے کو جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان دونوں گروہوں میں غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ اس پروفیشن سے جڑی مختلف اخلاقیات اور طریقہ کار ہیں۔
مثال کے طور پر غیر ممالک سے جرمنی آنے والے افراد یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں تاہم جرمنی میں تربیت یافتہ عملہ خیال کرتا ہے کہ ان کے پاس عملی تجربہ نہیں ہے۔ دوسری طرف غیر ممالک سے تربیت یافتہ عملہ کہتا ہے کہ وہ مناسب اور اپنے پروفیشن کے اصولوں کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
جرمنی میں تربیت یافتہ عملہ اکثر یہ شکایت بھی کرتا ہے کہ غیر ممالک سے آنے والے افراد جرمن زبان سے واقف نہیں ہیں، جس کی وجہ سے مسائل دوچند ہو جاتے ہیں۔ تاہم غیر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ لینگوئج کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس صورتحال میں ہنس بوکلر فاؤنڈیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ ہسپتالوں اور بزرگ افراد کے کیئر سینٹرز کی انتظامیہ کو ان دونوں گروپوں میں ہم آہنگی بڑھانے کی خاطر زیادہ کوششیں کرنا چاہییں۔ مزید کہا گیا ہے کہ خصوصی ماہرین کو ان دونوں گروپوں کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
جرمنی میں اس شعبے سے وابستہ زیادہ تر غیر ملکی افراد کا تعلق رومانیہ، کروشیا، پولینڈ اور ہنگری سے ہے، جو یورپی یونین کے رکن ممالک بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سربیا، بوسنیا اور البانیا سے تربیت یافتہ افراد بھی جرمنی میں ان سینٹرز میں کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خصوصی معاہدے کے تحت فلپائن سے بھی بڑی تعداد میں ماہرین جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔
اس مطالعے کے مطابق سن دو ہزار بارہ میں پندرہ سو غیر ملکی ماہرین جرمنی آئے تھے جبکہ سن دو ہزار سترہ میں یہ تعداد آٹھ ہزار آٹھ سو ہو گئی تھی۔ اگرچہ اس سیکٹر میں غیر ملکیوں کی جرمنی آمد بڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی جرمنی میں اس شعبے میں ماہر افراد کی کمی ہے۔ بالخصوص جرمنی میں اس شعبے میں مقامی کوالیفائڈ اسٹاف کی قلت ہے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔