1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

240511 Grüne Volkspartei

24 مئی 2011

حال ہی میں جرمن شہری ریاست بریمن کی علاقائی پارلیمان کے انتخابات منعقد ہوئے، جہاں عوام نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کی مخلوط حکومت کی توثیق کر دی تاہم گرین پارٹی کے لیے یہ انتخابی نتائج تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔

جرمنی کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ گرین پارٹی نے پورے ملک میں اپنی جڑیں رکھنے والی عوامی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ایسے میں اب سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا گرین پارٹی ایک ’عوامی جماعت‘ بننے جا رہی ہے؟

حال ہی میں جب یریمن کی علاقائی پارلیمان کے انتحابی نتائج کا اعلان کیاگیا تو CDU کے 20 فیصد کے مقابلے میں گرین پارٹی کو تقریباً 22 فیصد ووٹ ملے۔ گرین پارٹی میں ان نتائج پر جشن کی سی کیفیت تھی۔

گرین پارٹی کی سربراہ کلاؤڈیا روتھتصویر: picture alliance / dpa

گرین پارٹی کی بے پناہ خوشی بجا ہے کیونکہ 31 برس پہلے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ جماعت مستحکم عوامی جماعت سی ڈی یو کا سامنا کرتی چلی آئی ہے اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ گرین پارٹی عوامی حمایت کے معاملے میں سی ڈی یو کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔ بریمن میں اپنی شاندار کامیابی سے پہلے گرین پارٹی کو جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں تاریخی فتح نصیب ہوئی، جہاں جرمن تاریخ میں پہلی مرتبہ گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ونفریڈ کریچمان ایک صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

تو کیا گرین پارٹی ایک عوامی جماعت بننے جا رہی ہے؟ تاہم ’عوامی جماعت‘ کی اصطلاح گرین پارٹی کے عہدیداروں کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں کوئی عوامی جماعت کہا جائے۔ گرین پارٹی کی سربراہ کلاؤڈیا روتھ کہتی ہیں:’’ہم کوئی عوامی جماعت نہیں ہیں اور نہ ہی سی ڈی یو اب کوئی عوامی جماعت رہی ہے بلکہ ہم خود کو ایک ایسی جماعت سمجھتے ہیں، جو سیاسی شعبے میں ایسے نظریات پیش کرتی ہے، جن سے سارے انسانوں کا بھلا ہو سکے۔‘‘

وفاقی جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کے پارلیمانی حزب کی قائد ریناٹے کیوناسٹتصویر: picture-alliance/dpa

آخر عوامی جماعت کی اصطلاح میں خرابی کیا ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کے پارلیمانی حزب کی قائد ریناٹے کیوناسٹ بتاتی ہیں:’’ہم اِس اصطلاح سے خوش نہیں کیونکہ ہم نے تو اپنی جماعت قائم ہی ان سابقہ نام نہاد عوامی جماعتوں کے خلاف کی تھی، جو چالیس چالیس فیصد ووٹ لیتی تھیں اور ہر عمر اور ہر شعبے کے لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی تھیں جبکہ ان کے پاس ایسا کوئی خاکہ نہیں ہوتا تھا، جو واقعی پورے ملک کے لیے ہو۔‘‘

ماہر سماجیات وولف گانگ میرکل کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ گرین پارٹی کے پاس مسائل کے کوئی ٹھوس حل موجود ہیں لیکن اس جماعت کے ارکان مسائل کو پیش قابل اعتبار انداز میں کرتے ہیں اور مخصوص مفادات رکھنے والے گروپوں کو خوش کرنے کی بجائے اصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور یہی اُن کی مقبولیت کا راز ہے۔

رپورٹ: ہائنر کیزل (برلن) / امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں