جرمن ہتھیاروں کی برآمدات میں کمی، وجہ حکومتی عدم منظوری
20 جون 2018
جرمنی نے گزشتہ برس اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں کم ہتھیار برآمد کیے، جس کی وجہ یہ رہی کہ برلن میں وفاقی حکومت کی طرف سے ہتھیاروں کی ان برآمدات کی قبل از وقت لازمی منظوری کی شرح میں قریب نو فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
اشتہار
برلن سے بدھ بیس جون کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ہلکے اور بھاری ہتھیار تیار کرنے والے جرمن ادارے اپنی جو مصنوعات بیرون ملک برآمد کرتے ہیں، ان کے لیے انہیں حکومت سے لازمی طور پر منظوری لینا ہوتی ہے۔ 2017ء میں جرمن حکومت نے ان ہتھیاروں کی برآمد کے قریب نو فیصد سودوں کی منظوری دینے سے انکار کر دیا، جس کے باعث جرمن اسلحہ جات کی برآمد میں بھی کمی دیکھی گئی۔
روئٹرز نے آج بدھ کے روز جرمن کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مندرجات کا انتہائی قابل اعتماد حکومتی ذرائع کے ذریعے حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جنوری میں تیار کیے گئے عبوری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی نے 2017ء میں مجموعی طور پر 6.24 بلین یورو کے ہتھیار برآمد کیے۔
یہ مالیت 7.23 بلین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے اور 2016ء کے مقابلے میں ان برآمدات کی مالیت میں گزشتہ برس قریب 600 ملین یورو کی کمی ہوئی۔
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سِپری (SIPRI) کے مطابق جرمنی کا شمار ہتھیار برآمد کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمنی کے ماضی اور دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے جرمن عوام کے لیے ہتھیاروں کی بیرون ملک برآمد ایک بہت ہی حساس موضوع بھی ہے۔
اسی لیے جرمنی کے ہتھیار ساز صنعتی اداروں کو اپنی مصنوعات کی برآمد کے لیے حکومت سے قبل از وقت منظوری لینا ہوتی ہے اور اگر حکومت منظوری نہ دے تو یہ ہتھیار برآمد نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لیے گزشتہ برس جرمن ساختہ ہتھیاروں کی برآمد میں جو کمی ہوئی، اس کا سبب طلب میں کمی نہیں بلکہ برلن حکومت کی طرف سے ایسی تقریباﹰ ہر دسویں برآمد کی منظوری دینے سے انکار تھا۔
جرمنی میں اس وقت چانسلر میرکل کی قیادت میں جو مخلوط حکومت اقتدار میں ہے، اس میں شریک جماعتوں نے فروری میں جو مخلوط حکومتی معاہدہ کیا تھا، اس میں بھی یہ بات درج ہے کہ جرمنی آئندہ اپنے ہاں سے ہتھیاروں کی برآمد مزید کم کر دے گا۔ ساتھ ہی مخلوط حکومتی جماعتوں نے آپس میں یہ بھی طے کیا تھا کہ جرمنی بھرپور کوشش کرے گا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے ایک بلاک کے طور پر ہتھیاروں کی برآمدات کو بھی زیادہ مربوط بنایا جانا چاہیے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال جرمنی نے نیٹو اور یورپی یونین سے باہر کے ممالک کو جو ہتھیار برآمد کیے، ان کی مالیت 100 ملین یورو کے اضافے کے ساتھ 3.8 بلین یورو کے قریب رہی۔ ان تجارتی سودوں میں الجزائر کو بیچا جانے والا ایک جنگی بحری جہاز اور مصر کو بیچی جانے والی ایک آبدوز سب سے نمایاں رہے۔
سب سے زیادہ فضائی طاقت والی افواج
جدید ٹیکنالوجی اورجنگی میدانوں میں ہتھیاروں کی طاقت کے مظاہرے کے باوجود فضائی قوت جنگوں میں کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 2017ء میں سب سے زیادہ فضائی قوت رکھنے والی افواج کون سی ہیں؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Imago/StockTrek Images
امریکا
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگ بھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media/Pictures From History
روس
دنیا کی دوسری بڑی فضائی طاقت روس ہے، جس کے پاس تقریبا چار ہزار طیارے ہیں۔ ان میں 806 جنگی طیارے، پندرہ سو کے قریب اٹیک ایئر کرافٹ، گیارہ سو کے قریب آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے طیارے، لگ بھگ چار سو تربیتی طیارے اور چودہ سو کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 490 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
چینی فضائیہ کے پاس لگ بھگ تین ہزار طیارے ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت ور ترین فضائی فورس کے پاس تیرہ سو کے قریب جنگی طیارے، قریب چودہ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے 782طیارے، 352 تربیتی طیارے اور ایک ہزار کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے لگ بھگ دو سو اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/Y. Pan
بھارت
بھارتی فضائیہ کے پاس دو ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ دنیا کی اس چوتھی طاقت ور ترین فضائیہ کے پاس 676 جنگی طیارے، قریب آٹھ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے ساڑھے آٹھ سو طیارے، 323 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے سولہ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nv
جاپان
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں جاپان کا نمبر پانچواں ہے، جس کے پاس تقریبا سولہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 300 جنگی طیارے، تین سو اٹیک ائیر کرافٹ، سامان کی ترسیل کے لیے مختص پانچ سو کے قریب طیارے، 447 تربیتی طیارے اور کل 659 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹروں میں سے 119 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: KAZUHIRO NOGI/AFP/Getty Images
جنوبی کوریا
چھٹے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جس کی فضائیہ کے پاس لگ بھگ پندرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے 406 جنگی طیارے، ساڑھے چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص ساڑھے تین سو طیارے، 273 تربیتی طیارے اور لگ بھگ سات سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 81 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yonhap
فرانس
دنیا کی ساتویں بڑی فضائی طاقت فرانس کے پاس لگ بھگ تیرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تقریبا تین سو جنگی طیارے ہیں، اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ اس ملک کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص لگ بھگ ساڑھے چھ سو طیارے، قریب تین سو تربیتی طیارے اور تقریبا چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے پچاس اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Ena
مصر
دنیا کی آٹھویں بڑی فضائی فورس مصر کے پاس کل ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو سے زیادہ جنگی طیارے، چار سو سے زیادہ اٹیک ائیر کرافٹ،260 آمد ورفت کے لیے مختص طیارے، 384 تربیتی طیارے اور کل 257 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 46 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Bob Edme
ترکی
دنیا کی نویں بڑی فضائیہ ترکی کے پاس بھی ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے 207 جنگی طیارے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ ترکی کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص 439 طیارے، 276 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چار سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 70 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel
پاکستان
پاکستانی فضائیہ کا شمار دنیا کی دسویں فورس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس تقریبا ساڑھے نو سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو جنگی طیارے، قریب چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص261 طیارے، دو سو کے قریب تربیتی طیارے اور کل 316 ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 52 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Yu Ming Bj
10 تصاویر1 | 10
جرمن ساختہ چھوٹے ہتھیاروں کی برآمد کے حوالے سے یہ پہلو بھی اہم ہے کہ چھوٹے ہتھیاروں کی جرمنی سے برآمد میں گزشتہ برس 2016ء کے مقابلے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ان برآمدات کی سالانہ مالیت 47.8 ملین یورو رہی اور ایسے سب سے زیادہ جرمن ہتھیار فرانس نے خریدے۔
برلن میں حکومتی ذرائع کے مطابق جرمنی نے گزشتہ برس پہلی مرتبہ یہ کام بھی کیا کہ اس نے اپنے ہتھیاروں کی برآمدات کے بعد اس بات پر بھی کڑی نظر رکھی کہ یہ برآمدات جن ممالک کو بھیجی گئی تھیں، صرف وہی انہیں استعمال کریں اور وہاں سے یہ ہتھیار کہیں اور نہ بھیجے جائیں۔
جرمنی یہ کام کرنے والا یورپی یونین کا رکن پہلا ملک ہے اور اس نے اپنے ہتھیاروں کی برآمد کے بعد بھی نگرانی کے جس عمل کو مکمل کیا، وہ بھارت اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے بارے میں تھا۔ بعد از برآمد نگرانی کے اس عمل میں ان ممالک کی طرف سے جرمن ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدوں کی کسی خلاف ورزی کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔
م م / ا ا / روئٹرز
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔