جرمن ہسپتال ميں نوزائیدہ بچوں کی اموات، تحقيقات جاری
25 اگست 2010![](https://static.dw.com/image/5935494_800.webp)
مائنس کے يونيورسٹی ہسپتال کے بچوں اور نوجوانوں کے شعبے کے ہنگامی علاج کے وارڈ ميں ايسے نوزائيدہ بچوں کو رکھا جاتا ہے جو قبل از وقت پيدا ہوئے ہوں يا جن کے دل ميں کوئی خرابی ہو۔ يہ سبھی بچے شديد طور پر بيمار ہوتے ہيں۔ ڈاکٹر ان بچوں کو ڈرپ يا پلاسٹک کی نلکی کے ذريعے غذا فراہم کرتے ہيں۔ اس غذائی محلول ميں ميگنيشيم، کاربو ہائيڈريٹ اور پانی ہوتا ہے۔ ننھے مريضوں کے لئے يہ غذا ہسپتال کے کارکن ہسپتال کے کارکن ہسپتال کے اپنے دواخانے ميں روزانہ تيار کرتے ہيں۔ يہ ان کا معمول کا کام ہے۔
غذا کی تياری کے دوران يہ کارکن جراثيم سے پاک لباس پہنے ہوتے ہيں اور ہر 30 منٹ ميں کم ازکم ايک بار اپنے دستانے تبديل کرتے ہيں۔ دواخانے کے جس کمرے ميں يہ غذا تيار کی جاتی ہے، اُسے جراثيم سے بالکل پاک کمرہ کہا جاتا ہے۔ اُس کے اندر ہوا کو صاف کرنے کا ايک خاص فلٹر لگا ہوتا ہے۔ غذا مشينوں کی مدد سے تيار ہوتی ہے اور اسے پلاسٹک کی چھوٹی تھيليوں ميں بھرا جاتا ہے تاہم اس سے قبل ان مکمل طور پر خود کار مشينوں ميں ہاتھ سے کچھ پائپ بھی لگانا ہوتے ہيں۔ ہميشہ ہی، تيار شدہ غذا کا ايک نمونہ لے کر ہسپتال کے خود اپنے مائيکرو بائيولوجيکل انسٹيٹيوٹ ميں اُس کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس دوران يہ جانچا پرکھا جاتا ہے کہ غذا کے اجزاء مقررہ مقدار ميں ملائے گئے ہيں اور يہ بھی کہ اُس ميں کسی قسم کے جرثومے تو نہيں ہيں۔ ليکن مسئلہ يہ ہے کہ جراثيم کا سراغ غذا کے تيار ہونے کے تقريباً 20 گھنٹوں کے بعد ہی مل سکتا ہے۔
اسی طرح سے تيار کی گئی غذا 20 اگست کی شب ميں بھی ساری رات بچوں کو دی گئی ليکن اس رات ان نوزائيدہ بچوں کی حالت بگڑتی ہی گئی۔ اُن کی غذا ميں جراثيم کی آلودگی پائی گئی۔ اب تک اُن ميں سےتين بچے مرچکے ہيں۔ ابھی تک يہ معلوم نہيں ہو سکا ہے کہ کيا شديد بيمار بچوں کی اموات انہی جرثوموں کی وجہ سے ہوئی۔ سرکاری وکيل استغاثہ اس بارے ميں تحقيقات کررہے ہيں۔
اس سلسلے ميں جرمن ہسپتالوں ميں حفظان صحت کے ناکافی انتظامات کو ذمہ دار ٹھرايا جارہا ہے۔" ہسپتالوں ميں حفظان صحت کی جرمن سوسائٹی " ايک عرصے سے ملک بھرکے ہسپتالوں ميں حفظان صحت کے انتظامات کے يکساں معيار مقرر کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اُس کے ترجمان کلاؤس ڈيٹر ساسترو کے مطابق جرمنی ميں ہر سال 10 لاکھ افراد ہسپتالوں ميں جراثيم سے متاثر ہوتے ہيں اور اس وجہ سے سالانہ 40 ہزار تک اموات ہوتی ہيں۔ اگر حفظان صحت کے، پيشہ ورانہ لحاظ سے صحيح انتظامات ہوں تو ايسا نہ ہونے پائے۔ وفاقی وزير صحت روئسلر اب ہسپتالوں ميں حفظان صحت کو بہتر بنانا چاہتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ