’جزیرہ نما کوریا کے معاملات مذاکرات سے حل ہونا ضروری ہیں‘
24 دسمبر 2019
شمالی کوریا کے معاملے پر چین میں ایک سہ ملکی سربراہی اجلاس منگل چوبیس دسمبر کو ہوا۔ اس میں میزبان ملک کے وزیراعظم کے علاوہ جنوبی کوریائی صدر اور جاپانی وزیراعظم بھی شریک تھے۔
اشتہار
چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں نے منگل چوبیس دسمبر کو ہونے والی میٹنگ میں کئی دوسرے معاالات کے ساتھ ساتھ خاص طور پر جزیرہ نما کوریا کے بحران پر توجہ مرکوز کی۔ ان رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ کمیونسٹ ملک شمالی کوریا کے متنازعہ معاملات کے حل کے لیے قریبی رابطہ کاری بہت ضروری ہے۔ رہنماؤں کے مطابق ان مسائل کا پرامن انداز میں حل وقت کی ضرورت ہے۔
جنوب مغربی چینی شہر چینگڈُو میں منعقدہ اجلاس میں جاپانی وزیراعظم شینزو آبے، جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن اور میزبان وزیراعظم لی کیچیانگ نے اتفاق کیا کہ شمالی کوریا کا جوہری اور میزائل پروگراموں سے دستبردار ہونا حالات میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے۔ شمالی کوریا رواں برس کے ختم ہونے سے قبل پابندیوں میں نرمی کا متمنی ہے۔
چینی وزیراعظم لی کیچیانگ نے سہ ملکی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ تینوں ملک کوریائی تنازعے کے بارے میں مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات جاری رکھنا تینوں اقوام کے مفاد میں ہے۔ چینی صوبے سیچوان کے دارالحکومت میں لی کیچیانگ نے ملکی صدر شی جنگ پنگ کے شمالی کوریا پر بیان کردہ موقف کا کم و بیش اعادہ کیا۔
جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ان کی حکومت شمالی کوریا کے حوالے سے جنوبی کوریائی صدر مون جے ان کے ساتھ رابطوں کو استوار رکھے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کی حکومت کی اولین ترجیح جاپان کا بھرپور دفاع ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
چند روز قبل ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے واضح کیا تھا کہ واشنگٹن حکومت جوہری پروگرام کے حوالے سے رواں برس کے اختتام تک کی شمالی کوریائی ڈیڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتی۔ شمالی کوریا نے امریکا سے کہہ رکھا ہے کہ اکتیس دسمبر تک اس کے خلاف عائد شدہ پابندیوں میں نرمی کی جائے۔ یہ ڈیڈ لائن اس کمیونسٹ ملک کی حکومت نے اپنے طور پر طے کر رکھی ہے۔
اس ڈیڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کا بیان شمالی کوریا کے لیے خصوصی امریکی مندوب اسٹیفن بنگن نے اپنے جنوبی کوریائی دورے کے موقع پر دیا تھا۔ انہوں نے سیئول پہنچ کر کہا تھا کہ واشنگٹن اس امکان سے بھی آگاہ ہے کہ شمالی کوریا اگلے دنوں میں شدید اشتعال انگیزی کی کوششں کر سکتا ہے اور یہ بات جزیرہ نما کوریا میں امن کوششوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
ع ح ⁄ ع ا (ڈی پی اے)
بعد از مرگ محفوظ رکھی گئی کمیونسٹ رہنماؤں کی نعشیں
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونسٹ رہنماؤں کو اپنی زندگی میں اپنے تشخص کے ساتھ خاص لگاؤ رہا ہے۔ شاید اسی تناظر میں اُن کی رحلت کے بعد بھی اُن کے جسموں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ropi
چیئرمین ماؤ
ماؤ زے تنگ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کی با اثر ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ چین کا عالمی طاقت بننا ہے۔ اس کوشش میں سات کروڑ افراد کی جانیں ضرور ضائع ہوئی تھیں۔ سن 1976 میں ماؤ زے تنگ کی رحلت ہوئی تھی اور اُن کے آخری دیار کے لیے دس لاکھ افراد پہنچے تھے۔ ان کی نعش کو محفوظ کر کے بیجنگ میں اُن کے مزار میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ropi
کِم اِل سُنگ
شمالی کوریا کے پہلے لیڈر کِم اِل سُنگ تھے۔ انہیں کمیونسٹ اسٹیٹ قائم کرنے کے بعد کوریائی جنگ کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ شمالی کوریا سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ بیاسی برس کی عمر میں سن 1994 میں فوت ہوئے تھے۔ دس روزہ سوگ کے بعد اُن کی نعش کو بھی محفوظ کر کے ایک مزار میں رکھا گیا ہے جو کُمسُوسان پیلس میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/KCNA
کم جونگ اِل
شمالی کوریا میں کِم اِل سُنگ کی رحلت کے بعد اُن کے بیٹے کِم جونگ اِل نے جابرانہ نظام حکومت برقرار رکھا۔ وہ بھی اپنی ذات کو اپنی عوام میں عقیدت مندی کی انتہا تک پہنچانے کی کوشش میں رہے۔ سن دو گیارہ میں ہارٹ اٹیک کے باعث وہ دم توڑ گئے۔ انہیں مرنے کے بعد ابدی رہنما‘ قرار دیا گیا۔ ان کی نعش کو بھی محفوظ کر کے کُمسُوسان پیلس میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/KCNA
ہو چی منہہ
ہو چی منہہ نے ویتنام میں فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت کو شکست دی اور شمالی ویتنام کو جنوبی ویتنام سے ملانے کی جنگ شروع کی لیکن حتمی فتح سے پہلے ہی وہ فوت ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ مرنے کے بعد ان کی نعش کو جلا کر خاک ملک کی تین پہاڑیوں پر بکھیری جائے لیکن ان کی نعش کو محفوظ کر کے ہنوئی میں واقع ایک مزار میں رکھا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان کی ناک گل سڑ گئی ہے اور داڑھی بھی چہرے سے علیحدہ ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ولادیمیر لینن
سابقہ سوویت یونین کے بانی لیڈروں میں سب سے نمایاں ولادیمیر لینن تھے۔ وہ اکتوبر سن 1017 کے بالشویک انقلاب کے بھی سرخیل تھے۔ اُن کے دور کو سرخ خوف کا عہد قرار دیا جاتا ہے اور اس میں انقلاب مخالف ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا وہ بیمار ہو کر سن 1924 میں رحلت پا گئے۔ اُن کا دماغ نکال کر بقیہ نعش کو محفوظ کر دیا گیا تھا۔ لینن کا مزار روسی دارالحکومت ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہے۔